دنیائے عرب کے معروف تجزیہ نگار نے غاصب صہیونیوں کی جارحیت کے خلاف تحریکِ جہادِ اسلامی کے جنگجوؤں کے جواب اور غزہ اور تل ابیب کے اردگرد کی بستیوں کی طرف یکے بعد دیگرے 1400 سے زائد راکٹ داغے جانے کو ایک مضبوط اور دندان شکن جواب قرار دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عرب دنیا کے ماہر تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے رائی الیوم اخبار کے ادارتی مضمون میں، تحریک جہادِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل زیاد نخالہ کے اس بیان پر کہ جہادِ اسلامی کے کمانڈروں کو کس طرح قتل کیا گیا اور مزاحمتی قوتوں اور غاصب صہیونی حکومت کے درمیان حالیہ جنگ میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں پر تبصرہ کیا ہے۔

عطوان نے تحریک جہادِ اسلامی کے کمانڈروں کے قتل کے حوالے سے زیاد نخلے کے بیانیے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تحریک جہادِ اسلامی کے سکریٹری جنرل زیاد نخالہ نے اس بات پر زور دیا کہ قدس تحریک کے کمانڈروں کا قتل سیکیورٹی خلا کی وجہ سے نہیں ہوا تھا، بلکہ تنظیم کے دستور العمل پر عمل نہ کرنے اور موبائل فون کے استعمال میں غفلت کے نتیجے میں ہوا ہے۔ یہ وضاحتیں بہت چونکا دینے والی ہیں۔

عرب دنیا کے تجزیہ کار نے مزید لکھا ہے کہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ غاصب صہیونی حکومت کے پاس پیگاسس جاسوسی میلویئر موجود ہے اور وہ اس ڈیوائس کے ذریعے تمام ٹیلیفون گفتگو کی نگرانی کرتی ہے اور اسے مزاحمتی کمانڈروں کی لوکیشن معلوم کر کے ان کو قتل کرنے کیلئے استعمال کرے گی۔

انہوں نے عرب رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں اور فون سیل کے استعمال نہ کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پچھلے سال بیروت میں، میں نے تحریک جہادِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل زیاد نخالہ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات سخت سیکیورٹی حصار میں ہوئی۔ اس دوران زیاد نخالہ نے موبائل فون کا استعمال بالکل بھی نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جہادِ اسلامی کے کمانڈروں نے حفاظتی ہدایت پر عمل درآمد کرنے میں کیوں کوتاہی کی؟

عطوان نے مزید لکھا ہے کہ تاریخ میں تمام انقلابات حفاظتی خلاء، جاسوسوں اور ان کے جنگجوؤں کی لاپرواہی کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں، لیکن ان انقلابات نے بالآخر قابضین کو شکست دے کر اپنے وطن کو ان کے چنگل سے آزاد کرایا۔ فلسطینی انقلاب بھی ان اصولوں سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

انہوں نے غاصب صہیونیوں کی جارحیت کے خلاف تحریکِ جہادِ اسلامی کے جنگجوؤں کے جواب اور غزہ اور تل ابیب کے اردگرد کی بستیوں کی طرف یکے بعد دیگرے 1400 سے زائد راکٹ داغے جانے کو ایک مضبوط اور دندان شکن جواب قرار دیا اور مزید لکھا کہ فلسطینیوں کے اس شدید ردعمل نے "اسرائیل" کی سیاسی اور فوجی کمانڈ کو سرگرداں کردیا۔ فلسطینیوں کا ردعمل اب بھی مضبوط ہے اور دشمن نہ صرف فلسطینیوں کے ردعمل اور عزم کو کم کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس میں اضافے کا باعث بھی بنا ہے۔

دنیائے عرب کے اس ماہر تجزیہ نگار نے مزاحمتی محاذ اور غاصب صہیونی حکومت کے درمیان حالیہ جنگ میں رونما ہونے والی نئی اور عظیم پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ طولکرم کے گاؤں نزلہ میں ایک راکٹ لانچ کرنا، جو قریبی صہیونی بستیوں کی طرف خود ساختہ راکٹ داغنے کیلئے استعمال ہوتا تھا، ایک بڑی پیش رفت تھی۔ یہ پیشرفت میزائل مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی اور ممکنہ طور پر غزہ سے مغربی کنارے تک ڈرون طیاروں کی منتقلی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ واقعہ غاصب صہیونی حکومت اور یہودی بستیوں میں بسنے والے یہودیوں کیلئے بہت خوفناک ہے، کیونکہ صہیونی بستیاں اور فلسطینی شہر ایک دوسرے سے نزدیک ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکیں خاص طور پر تحریک جہادِ اسلامی حالیہ جنگ میں اپنی افواج کی کارکردگی کا جائزہ لے گی اور ان سے ہونے والی کچھ غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ کی متوقع جنگوں میں ان غلطیوں کی تکرار سے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرے گی۔