مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک علمی و فکری نشست سے خطاب کیا۔ نشست کا موضوع ”اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ“ تھا۔ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے۔ اسلام پر یلغار سیکولرز اور لبرلز کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں جو چیز حائل ہے، وہ انسان کی معنویت ہے۔ معنویت وہ واحد نظریہ ہے جو انسان کی روح کی ضرورت اور تکمیل کا ذریعہ ہے۔ دینِ اسلام کےعلاوہ یہ نظریہ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، عیسائیت اور یہودیت میں بھی موجود ہے۔ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ روحانی سکون کا خواہش مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کا بتوں کو سجدہ کرنا بھی ان کی معنوی ضرورت کا تقاضہ تھا۔ اس معنویت کو راہِ راست پر لانے اور درست عبودیت کا راستہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ درست عبودیت کے انتخاب کے نتیجہ میں انسان کی معنویت کو سکون ملتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے ذرائع سے حاصل کیے جانا والا سکون عارضی اور ناپائیدار ہے۔ جیسے شراب کا نشہ وقتی طور پر انسان کو پرسکون تو کر دیتا ہے لیکن نشہ کا اثر ختم ہونے کے بعد وہ اضطراب محسوس کرتا ہے اور دوبارہ سکون حاصل کرنے کے لئے مزید شراب پیتا ہے۔ ایسے اضطراب کا شکار انسان اگر درست راستہ کا انتخاب کرے تو اس کے اندر کی بےچینی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے فرمانِ خداوندی ہے کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ یہاں ذکر سے مراد صرف زبان سے چند مخصوص کلمات کا ادا کرنا نہیں ہے، کلمات ذکر کا مظہر ہیں جب کہ ذکر کی اصل روح وہ سکون اور اطمینان ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
علامہ امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے نزدیک انسان ایک آلہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی نظر میں انسان ہدف ہے، اسی لئے اس کی تربیت کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا۔ مطالعہ اور تحقیق کے بعد حیرت انگیز حقائق کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام دنیا اسلام کے خلاف مصروفِ عمل ہے لیکن اس دین کی آئیڈیالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چند یورپی مالک کے تھنک ٹینکس نے اپنی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ اگلے چالیس سالوں میں اسلام ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ سال کے تقریبا ہر روز ایک کلیسا کو گرا کر پارک، ہسپتال یا مسجد کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔ کلیسا جو دنیا کے سب سے بڑے مذہب "مسیحیت" کا مرکز ہے، اب مسیحوں کی قلبی و روحانی تسکین کا باعث نہیں رہا۔ تیزی سےبڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت کلیساؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف دینِ اسلام ہی انسان کی روح کو مخاطب کر کے اسے آخری وقت تک مایوس ہونے نہیں دیتا۔
علامہ امین شہیدی نے ملک کے موجودہ تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام، نصاب اور اس کے ڈھانچہ کو بھی مغرب نے تشکیل دیا ہے اور اسی نصاب کے ذریعہ دیسی لبرلز تیار کیے جاتے ہیں۔ دیسی لبرلز کی مثال "کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا" جیسی ہے جن کو نہ سرمایہ ملتا ہے اور نہ خدا و رسولؐ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑا چیلنج دین بیزاری کا ہے۔
انہوں نے ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مہسا امینی کو حجاب مخالف تحریک کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مہسا امینی نہ ہوتی تو اس چال کے لئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جاتا۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک مہسا امینی کے نام کو استعمال کر کے حجاب مخالف تحریک کی اقتصادی اورثقافتی پشت پناہی رہے ہیں۔ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ان کے اپنے معاشرہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن وہ ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ان کے لئے چیلنج ہے اور وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہماری دینی اقدار اور کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ لبرلز پر سرمایہ دارانہ نظام کا ااثر اس حد تک غالب آ چکا ہے کہ وہ اسلام کی مخالفت میں دیگر مذاہب سے بھی آگے دکھائی دیتے ہیں۔ جرمنی میں ایک مسجد میں جمعہ کی اذان دیے جانے کی اجازت کے بعد کچھ ایرانی خواتین نے عجیب و غریب انداز میں احتجاج کیا اور مسجد کے عین سامنے اپنے اعضائے رئیسہ کی نمائش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسا کلچر چاہیے۔ اگر غور کیا جائے تو انسانی حقوق کے حوالہ سے مغرب کے نعرے بہت خوب صورت ہیں۔ جیسے آزادی، انسانی حقوق کا حصول، عورت اور مرد کی برابری، حیوانات کے حقوق وغیرہ۔ لیکن ان نعروں میں پوشیدہ اہداف انتہائی غلیظ ہیں۔ اسی طرح پاکستان یا تیسری دنیا کے ممالک کو قرض مغربی کلچر کے نفاذ کی قیمت پر دیے جاتے ہیں۔ ہماری ثقافت بھی سرمایہ دارانہ نظام کے نشانہ پر ہے۔