مہر خبررساں ایجنسی کے ثقافتی اور فکری امور کے نامہ ںگار کے ساتھ گفتگو میں پاکستان کے شہری سید حسن رضا نقوی نے شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں اردو زبان میں اپنی کتاب " سرباز مکتب " کے بارے میں کہا کہ اس کتاب کو پاکستان میں شائع کیا ہے جس کا سید عبدالحسین رئیس السادات نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے ۔ اردو کے علاوہ یہ کتاب فارسی، عربی اور انگریزي میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ سرباز مکتب نامی کتاب شہید سلیمانی کے ستر انٹرویوز اور بعض غیر شائع شدہ رپورٹوں پر مشتمل ہے۔
سید حسن رضا نقوی نے اس سے قبل اردو میں " ولایت فقیہ " اور "شبہائے ریڈیو " نامی دو کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔
سید حسن رضا نقوی ٹی وی چینل اردو سحر سے منسلک ہیں۔ نقوی محرم و صفر کے دو مہینوں میں پاکستان جاتے ہیں اور اپنی تقریروں میں شہید مطہری، شہید بہشتی، حضرت امام خمینی(رہ) اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی کتابوں سے اسفتادہ کرتے ہیں۔
نقوی نے ایران میں اپنے قیام کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ میں تین سال سے ایران میں ہوں۔ میں نے ایک سال قزوین میں فارسی زبان کے تعلیمی مرکز میں گزارا اور پھر میں تہران یونیورسٹی میں آگیا۔ اور آجکل میں تہران یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہا ہوں۔
سید حسن رضا نقوی نے کہا کہ ایران کے ساتھ میری محبت کا سرچشمہ علامہ اقبال لاہوری اور اس کے ایران کے بارے میں اشعار ہیں۔ فارسی اشعار سے ہمیشہ میری دلچسپی رہی ہے۔ علامہ اقبال لاہوری نے چار کتابیں اردو میں تحریر کی ہیں جبکہ چھ کتابیں فارسی زبان میں لکھی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم جب پاکستان میں امریکہ اور استعماری طاقتوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں تو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ایران واحد ملک ہے جو امریکہ کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑا ہے۔ نقوی نے کہا کہ میرے پاکستان کے استاد افتخار عارف ہیں ۔ جو ایران میں اکو ثقافتی ادارے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور وہ پاکستان میں اردو زبان و ادبیات ادارے کے سربراہ بھی ہیں۔ افتخار عارف جناب حداد عادل کے دوستوں میں ہیں ۔ اور انھوں نے حداد عادل کے ساتھ میری پہچان کروائی۔ اور میں ایران آگيا اور آجکل میں اپنی تعلیم کے ساتھ ٹی وی چینل سحر کے ساتھ بھی منسلک ہوں۔
سید حسن رضا نقوی نے ایران میں اپنے تین سالہ قیام کے بارے میں مہر نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران زندگی بسر کرنے کے لئے اچھی جگہ ہے۔ ایران کی خارجہ پالیسی مضبوط ہے، جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت ہی پیچيدہ ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی مستقل نہیں بلکہ مفادات پر مبنی ہے جو بعض دیگر ممالک کے زير اثر ہے۔ اسرائیل نے بعض عرب ممالک کو ایران سے خوفزدہ کررکھا ہے اور اس طرح وہ عرب ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی اور سیاسی تعلقات استوار کررہا ہے اور مفادات پر مبنی پالیسی ٹھیک نہیں ۔ ممکن ہے کل پاکستان اپنے مفادات کی خاطر بعض عرب ممالک کے دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کردے ۔
سید حسن رضا نقوی نے شہید قاسم سلیمانی کی شناخت کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سن 2011 شام میں جب جنگ شروع ہوئی تو میرا یونیورسٹی میں تازہ داخلہ ہوا تھا اور میں اسلام آباد میں حکومتی ریڈیو کا مجری بھی تھا۔ ریڈیو کے ڈائریکٹر نے ایک رات مجھ سے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ آجکل حلب کی صورتحال کیا ہے؟ میں کہا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حلب میں شیعہ اور سنی جنگ چھڑ گئی ہے اور ایران سنیوں کو قتل کررہا ہے۔ اور یہ طے پایا کہ میں اس موضوع کے بارے میں تحقیق کروں۔ میں اس دور میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا معاون بھی تھا۔ میں نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سربراہ سے اس بارے میں پوچھا ، تو انھوں نے کہا کہ حلب میں داعش کا ایک گروہ پہنچ گیا ہے اور شام کے صدر بشار اسد نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایران سے مدد طلب کی ہے اور ایران نے بھی سپاہ قدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو شام کی سنی حکومت کی حمایت کے لئے بھیج دیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے شہید قاسم سلیمانی کا نام سنا۔ کچھ عرصہ کے بعد داعش نے نبی کریم (ص) کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے روضہ کو شہید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ، جس میں وہ ناکام رہے۔ اس کے بعد داعش نے عراق کا رخ کیا۔ اور حرم ہائے اہلبیت کے دفاع میں شہید قاسم سلیمانی کا نام اکثر سنتا رہتا تھا۔ داعش امریکہ اور اسرائیل کی پروردہ تنظیم تھی جسے سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل تھی۔
شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں کتاب لکھنے سے متعلق مہر نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں کچھ معلومات بیان کی ہیں لیکن ان کی بغداد ايئر پورٹ پر شہادت کے بعد عراق و ایران میں ان کی تشییع جنازہ میں کئی ملین افراد کی شرکت نے مجھے بہت ہی متاثر کیا جس کے بعد میں نےشہید سلیمانی کے بارے میں مزيد تحقیقات کا آغاز کردیا۔ میں نے دیکھا کہ شہید قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بہت گریہ کیا ۔ شہید سلیمانی کے لئے شام و لبنان اور عراق میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائيوں نے بھی اپنے کلیساؤں میں دعائیہ تقریبات منعقد کیں جس سے ثابت ہوتا ہے شہید سلیمانی انسانیت کے خدمت گزار تھے ۔
انھوں نے کہا کہ سرباز مکتب کتاب کا پاکستان میں شاندار استقبال ہوا ہے اور لوگوں نے پہلے سے بکنگ کی درخواست دے رکھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اس سے قبل مزید دو کتابیں شہید سلیمانی کے بارے میں شائع ہوچکی ہیں لیکن تالیفی شکل میں یہ پہلی کتاب ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کتاب پاکستان میں اہلسنت کے بڑے ناشر (fiction house) نے شائع کی ہے ۔ ناشر نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ امریکہ نے ظلم کیا ہے اور ایران کے اہم جنرل کو شہید کیا ہے اگر چہ مجھے تکفیریوں اور دیگر اداروں سے خطرات لاحق ہیں لیکن اس کے باوجود میں یہ کتاب شائع کروں گا ۔ جب کتاب شائع ہوئی تو کتاب کی فروخت کے بارے میں خود ناشر محو حیرت تھا۔
سید حسن رضا نقوی نے اپنی کتاب کا نام " سرباز مکتب " رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مکتب کے کئی معنی ہیں جن میں سیاسی و اقتصادی مکتب بھی ہے ۔ مدرسہ کو بھی مکتب کہا جاتا ہے لیکن مکتب کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں جس کی طرف میں نے کتاب مقدمہ میں اشارہ بھی کیا ہے اور یہ فکری مکتب ہے جس کی خاص خصوصیات ہیں ۔ شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی ان کے لئے مکتب کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شہید سلیمانی ہمیشہ کہتے تھے کہ میں حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کا سرباز ہوں۔ ان دو لفظوں کوملا کر میں نے کتاب کا نام " سرباز مکتب " رکھ دیا۔