حضرت امام زین العابدین کااسم گرامی "علی" کنیت ابومحمد۔ ابوالحسن اورابوالقاسم تھی، آپ کے القاب بےشمارتھے جن میں زین العابدین ،سیدالساجدین، ذوالثفنات، اورسجاد وعابد زیادہ مشہورہیں ۔حضرت امام زین العابدین کوکثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین کہاجاتاہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلامی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی بن الحسین امام زین العابدین کی ولادت باسعادت 5 شعبان المعظم  ۳۸ھ میں مدینہ منورہ میں  ہوئی. آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور علی علیہ السّلام نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے نام پر علی رکھا . حضرت امام زین العابدین شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔آپ کے والد گرامی حضرت امام حسین علیہ السلام اور والدہ حضرت بی بی شہر بانو ہیں۔

آپ کااسم گرامی "علی" کنیت ابومحمد۔ ابوالحسن اورابوالقاسم تھی، آپ کے القاب بےشمارتھے جن میں زین العابدین ،سیدالساجدین، ذوالثفنات، اورسجاد وعابد زیادہ مشہورہیں ۔(1)

آپ کے لقب زین العابدین کی توجیہ :

علامہ شبلنجی کابیان ہے کہ امام مالک کاکہناہے کہ آپ کوزین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہاجاتاہے (2) علماء فریقین کاارشادہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نمازتہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپ کے قریب آگیا اوراس نے آپ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کومنہ میں لے کاٹناشروع کیا، امام جوہمہ تن مشغول عبادت تھے اورآپ کارجحان کامل بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، وہ ذرابھی اس کے اس عمل سے متاثرنہ ہوئے اوربدستورنمازمیں منہمک ومصروف ومشغول رہے بالآخروہ عاجزآگیا اورامام نے اپنی نمازبھی تمام کرلی اس کے بعدآپ نے اس شیطان ملعون کوطمانچہ مارکردورہٹادیا اس وقت ہاتف غیبی نے انت زین العابدین کی تین بارصدادی اورکہابے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو، اسی وقت آپ کایہ لقب ہوگیا ۔ (3)

  علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سرتھے اوراس کے دانت بہت تیزاوراس کی آنکھیں سرخ تھیں اوروہ مصلی کے قریب سے زمین پھاڑکے نکلاتھا ایک روایت میں اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قیامت میں آپ کواسی نام سے پکاراجائے گا ۔(4)

آپ کےلقب سجادکی توجیہ

ذ ہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمدباقرعلیہ السلام لکھاہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوسجاد اس لیے کہاجاتاہے کہ آپ تقریبا ہرکارخیرپرسجدہ فرمایاکرتے تھے جب آپ خداکی کسی نعمت کاذکرکرتے توسجدہ کرتے جب کلام خداکی آیت ”سجدہ“ پڑھتے توسجدہ کرتے جب دوشخصوں میں صلح کراتے توسجدہ کرتے اسی کانتیجہ تھاکہ آپ کے مواضع سجودپراونٹ کے گھٹوں کی گھٹے پڑجاتے تھے پھرانہیں کٹواناپڑتاتھا۔
تربیت
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کا ابھی دوبرس کاسن تھا جب آپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کاسایہ سر سے اٹھ گیا. امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میں پروان چڑھے . بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات ہوئی . اب امامت کی ذمہ داریاں آپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جھاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے . یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پھنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رہےتھے ۔
شادی
اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی یعنی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ہوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رہنے کاسامان خود اپنی زندگی میں فراہم کردیا .

امام سجاد علیہ السلام کا مدفن
مدینہ والوں نے آپ کی شہادت کے بعد آپ کا جسم مبارک نہایت شان و شوکت سے بقیع میں منتقل کیا اور آپ کو امام حسن علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کیا۔ بقیع کے اسی حصے میں عباس بن عبدالمطلب بھی مدفون تھے اور پھر امام باقر اور امام صادق علیہما السلام بھی آپ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اس قطعے پر قبہ و بارگاہ تھی جس کو وہابیوں نے منہدم کردیا۔(5)
امام سجاد علیہ السلام کا قاتل
حضرت علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام ولید بن عبدالملک کی بادشاہی کے زمانے میں شہید ہوئے۔ چنانچہ عمر بن عبدالعزیز بادشاہ بنا تو کہا: ولید ایک جابر و ظالم شخص تھا جس نے خدا کی زمین کو ظلم و جور سے بھر دیا تھا۔ اس شخص کے دور میں پیروان آل محمد (ص)، خاندان رسالت اور بالخصوص امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ مروانیوں اور امویوں کا رویہ بہت ظالمانہ اور سفاکانہ تھا۔
گو کہ مدینہ کا والی ہشام بن اسماعیل مروان کے زمانے سے مدینہ منورہ پر مسلط تھا لیکن ولید کے دور میں اس کا رویہ بہت ظالمانہ تھا اور اس نے امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ شدت آمیز برتاؤ روا رکھا۔ اس نے اہل مدینہ پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ولید بن عبدالملک نے اس کو منصب سے ہٹا دیا اور اپنے باپ مروان کے گھر کے دروازے کے ساتھ رکھا تا کہ لوگ اس سے اپنے بدلے چکائیں۔ یہ شخص خود کہا کرتا تھا کہ امام سجاد علیہ السلام سے خوفزدہ ہے اور اس کو ڈر تھا کہ امام سجاد (ع) اس کی شکایت کریں گے؛ لیکن امام سجاد علیہ السلام اپنے اصحاب کے ہمراہ مروان کے گھر کے سامنے سے گذرے جہاں ہشام بن اسماعیل کی شکایتیں ہورہی تھیں لیکن امام اور آپ کے ساتھیوں نے ایک گرے ہوئے منکوب شخص کی کسی سے کوئی شکایت نہیں کی اور ہشام چلا اٹھا کہ: "الله اعلم حیث یجعل رسالته" خدا خود ہی جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قرار دیں۔ اور روایت میں ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے معزول مروانی گورنر کو اس کے تمام مظالم اور جرائم بھلا کر پیغام بھیجا کہ "اگر تم تنگدست ہو تو ہم مدد کے لئے تیار ہیں"۔
مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے؛ بعض کا کہنا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام ولید بن عبدالملک کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ آپ کو ولید کے بھائی ہشام بن عبدالملک نے مسموم کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ ہشام ہی امام کا قاتل کیوں نہ ہو، وہ یہ کام ولید کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا تھا چنانچہ ولید بن عبدالملک بن مروان بن العاص روسیاہ ہی امام سجاد علیہ السلام کا قاتل ہے۔ (6)
مدینہ منورہ کے عوام اور امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کا سوگ
امام علیہ السلام کو شدید دور کا سامنا تھا لیکن آپ نے 35 سالہ انسانی اور الہی سیرت و روش کے ذریعے لوگوں کو اپنا مجذوب بنا رکھا تھا اور امامت کی خوبصورت تصویر ان کی نظروں کے سامنے رکھی تھی چنانچہ آپ کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے شہر مدینہ میں پھیل گئی اور لوگ جنازے میں شرکت کے لئے جمع ہوگئے۔
سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں کہ جب امام سجاد علیہ السلام شہید ہوگئے تو مدینہ کے تمام باشندے نیک انسانوں سے لے کر بد کردار انسانوں تک، سب آپ کے جنازے میں شریک ہوئے، سب آپ کی تعریف و تمجید کررہے تھے اور اشکوں کے سیلاب رواں تھے، جلوس جنازہ میں سب نے شرکت کی حتی کہ مسجد النبی (ص) میں ایک شخص بھی نہیں رہا تھا۔ (7)

امام سجاد علیہ السلام کا ایک اونٹ تھا جو بائیس مرتبہ آپ کے ہمراہ سفر حج پر گیا تھا اور حتی کہ امام نے ایک بار بھی اس کو تازیانہ نہیں مارا تھا۔ امام نے اپنی شہادت کی شب سفارش کی کہ اونٹ کا خیال رکھا جائے۔ جب امام علیہ السلام نے شہادت پائی تو اونٹ اٹھ کر سیدھا امام (ع) قبر مطہر پر پہنچا اور قبر پر گرگیا جبکہ اپنی گردن زمین پر ماررہا تھا اور اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ امام محمد باقر علیہ السلام اطلاع پا کر اپنے والد کی قبر پر پہنچے اور اونٹ سے کہا: آرام سے ہوجاؤ یا پرسکوں ہوجاؤ، اٹھو خدا تجھ کو مبارک قرار دے۔
اونٹ پرسکوں ہوگیا اور اٹھا کر چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد واپس لوٹا اور اپنی پہلے والی حرکتیں دہرا دیں۔ اور امام باقر علیہ السلام نے آکر اس کو لوٹا دیا لیکن تیسری مرتبہ وہ پھر بھی قبر پر پہنچا تو امام باقر علیہ السلام نے فرمایا۔ اونٹ کو اپنے حال پر چھوڑو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب مر جائے گا۔ روایت میں ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کے تین دن مکمل نہيں ہوئے تھے کہ اونٹ بھی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۱ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۶ ،نورالابصار ص ۱۲۶ ،الفرع النامی نواب صدیق حسن ص ۱۵۸) ۔

2۔ (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔

3۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۲ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۷) ۔

4۔ (مناقب جلد ۴ ص ۱۰۸)، (دمعة ساکبة ص ۴۲۶) ۔

5 ۔ بحارالانوار، ‌ج 46، ص 151، حدیث 10
6 ۔  بحارالانوار،‌ج 46، ص 152، حدیث 12 و ص 153 و 154
7 ۔  بحارالانوار، ‌ج 46، ص 150
8 ۔  بحارالانوار، ‌ج 46، ص147 و 148، حدیث 2 و 3 و 4 به نقل از بصائر الدرجات و اختصاص و اصول کافی ج 1، ص 467، حدیث 2 و 3 و4