مہر خبررساں ایجنسی نے افغان ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغان طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور وہ صدارتی محل میں داخل ہوگئے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی اقتدار چھوڑ کر تاجیکستان چلے گئے ہیں جبکہ طالبان افغان نے فورسز کی چوکیاں سنبھال لیں ہیں۔
افغان مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے بھی اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کی تصدیق کردی ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے ساتھ ہی طالبان سے مذاکرات کے لیے کچھ وقت مانگ لیا۔
اطلاعات کے مطابق کابل میں جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جن میں تقریباً 40 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
ادھر طالبان سے مذاکرات کے لیے عبداللہ عبداللہ آج وفد کے ہمراہ قطر روانہ ہوسکتے ہیں۔
ترجمان طالبان کا کہنا ہے کہ طالبان نہ کسی کے گھر میں داخل ہوں اور نہ ہی کسی کو تنگ کریں۔
سن 2001ء کے بعد کابل کا منظر نامہ ایک بار پھر بدل گیا ہے، طالبان دارالحکومت میں داخل ہوگئے ہیں۔
طالبان رہنما ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کو افغان فورسز کی خالی کی گئی پوسٹوں پر قبضہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کابل کے کچھ علاقوں میں داخلے سے افغان شہری خوف زدہ نہ ہوں۔
اس سے پہلے امریکی سفارت خانے سے عملے کو نکالنے کا آپریشن جاری رہا، امریکی شہریوں کو شینوک ہیلی کاپٹرز میں ایئرپورٹ منتقل کیا گیا۔ طالبان نے بگرام اور کابل کے قریب پُل چرخی جیل کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے۔
ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے، یقین دلاتے ہیں کہ افغان شہریوں کی جان و مال محفوظ ہے۔ اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے بعد سوال اٹھا کہ اقتدار کی پُرامن منتقلی کون یقینی بنائے گا؟
افغان کے سابق صدر حامد کرزئی نے صدر اشرف غنی کے بعد افراتفری اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے تین رکنی رابطہ کونسل بنادی ہے۔