فرانسیسی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان نے ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں مغربی ممالک کی رفتار کو غیر منطقی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک کو ایران کے ہمسایہ ممالک سعودی عرب اور اسرائیل کے تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں بھی جواب طلب کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان مارک فینو نے ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں امریکہ اور یورپی ممالک کی رفتار کو غیر منطقی  قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کو ایران کے ہمسایہ ممالک سعودی عرب اور اسرائیل کے تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں بھی جواب طلب کرنا چاہیے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان نے کہا کہ مغربی ممالک کا دعوی ہے کہ  ایرانی میزائل دنیا کے لئے خطرہ ہیں تو کیا امریکہ اور دوسرے ممالک کے میزائل اور ایٹمی ہتھیار دنیا کے لئے خطرے کا باعث نہیں ہیں ؟ اس نے کہا کہ ایران کے میزائل پروگرام پر دباؤ اور سوالیہ نشان لگانا درست نہیں ہے۔

فرانسیسی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان نے مشترکہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ اور یورپی ممالک کی رفتار کے بارے میں مہر نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوکر معاہدے کو توڑ دیا اور یورپی ممالک نے بھی مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں کے مطابق عمل نہیں کیا۔ ایران نے ایک سال تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور ایک سال کے بعد ایران نے بھی مشترکہ ایٹمی معاہدے کی شق 36 کے مطابق معاہدے سے خارج ہونے کا تدریجی عمل شروع کردیا۔ اس نے کہا کہ مذاکرات کے بارے میں امریکہ کامؤقف واضح نہیں ، کبھی وہ مذاکرات کے لئے پیشگی شرط رکھتا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ پیشگی شرط کے بغیر مذاکرات کے لئے امادہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پر عالمی برادری کا اعتماد ختم ہوگیا ہے اور ایران سمیت کسی بھی ملک کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ امریکہ مشترکہ ایٹمی معاہدے سمیت کئی عالمی معاہدوں سے بھی خارج ہوگیا ہے اور اس نے عالمی اقتصاد کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور وہ خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل جیسی بے لگام اور ڈکٹیٹر حکومتوں کی حمایت اور انھیں پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے امریکہ کے قول و فعل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔