مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانہ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 17 سعودی اہلکاروں پر امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ امریکہ کی وزارت خزانہ کی جانب سے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی سعودی شہری پر پابندیاں عائد کی گئی ہوں۔ امریکہ کی جانب سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیر سعود القحطانی پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں سعودی ڈپٹی انٹیلی جنس احمدالعسیری کانام بھی پابندی کی فہرست میں شامل ہے ۔ انہیں جمال خاشقجی کے قتل کے فوری بعد عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔ مزید جن 15 افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی ٹیم کے اہم افراد شامل ہیں جنہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کی واردات میں حصہ لیا۔ سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل تمام افراد زیرحراست ہیں۔ ذرائع کے مطابق خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان براہ راست ملوث ہیں اور امریکہ سعودی عرب کے خونخوار ولیعہد کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔جن سعودی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کے نام مندرجہ ذيل ہیں:
1 ۔ منصور عثمان اباحسین
2 ۔ نائف حسن العریفی
3 ۔ فهد شبیب البلوی
4 ۔ مشعل سعد البوستانی
5۔ ثائر غالب الحربی
6 ۔ عبد العزیز محمد الحساوی
7۔ مصطفی محمد المدنی
8 ۔ بدر لافی العتیبی
9 ۔ خالد العتیبی
10 ۔ محمد العتیبی
11۔ سیف سعد القحطانی
12۔ سعود القحطانی
13 ۔ ترکی مسرف الشهری
14۔ ولید عبدالله الشهری
15۔ محمد سعد الزهرانی
16۔ ماہر عبدالعزیر مطرب
17۔ صالح محمد الدبیخی
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر اعتراف کیا ہے کہ خاشقجی کو استنبول میں سعودی عرب کے قونصلخانہ میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گيا اور اس کے بعد اس کے جسم کے ٹکڑے ٹگڑے کردیئے گئے۔ سعودی عرب پہلے خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں جھوٹ بول کر انکار کرتا رہا لیکن بعد میں عالمی دباؤ کے تحت اس نے اس بہیمانہ قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔ خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں محمد بن سلمان کی طرف سے ترکی بھیجے گئے 15 اہلکاروں کے ساتھ 3 دیگر اعلی الکاروں کو بھی گرفتار کیا گيا۔ عرب ذرائع کے سعودی ولیعہد حمد بن سلمان جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔