مہر خـبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطراز ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کومیری طرف سے حسین علیہ السلام کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی منجانب اللہ اداکی جاتی ہے، یہ سن کرسرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل علیہ السلام ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ مولا صلی اللہ علیہ وسلم ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین علیہ السلام “ کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بے یار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین علیہ السلام کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ سلام اللہ علیہا ہوگئے ۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جوحضرت علی علیہ السلام کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اوروہ حسین علیہ السلام کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبر ہونے کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ سلام اللہ علیہا نے حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایا جب میں نہ ہوں گا نہ تو سلام اللہ علیہا ہوگی نہ علی علیہ السلام ہوں گے نہ حسن علیہ السلام ہوں گے فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا فاطمہ سلام اللہ علیہا بالکل بے جرم وخطا صرف اسلام کی حمایت میں شہید کیا جائے گا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، اے اللہ، اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔ انسانی تاریخ میں ابتدا سے آج تک حق وباطل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان تمام جنگوں میں وہ معرکہ اپنی جگہ پر بے مثل ہے جو کربلا کے میدان میں رونما ہوا، یہ معرکہ اس اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اس میں تلواروں پر خون کی دھاروں نے، برچھیوں پر سینوں نے اورتیروں پر گلوں نے فتح وکامیابی حاصل کی، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح اورہر انصاف پسند انسان کی آنکھوں کا تارا ہے جبکہ ظالم ہمیشہ کے لئے شکست خوردہ اورانسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت اور قابل مذمت ہے.
پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے نواسے سید الشہداءحضرت امام حسین (ع) کی ولادت باسعادت ۳ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، اور معدن علم میں ہوئی۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین (ع) ابتدا ہے اسماعیل
آپ بھی اپنے بھائی امام حسن(ع) کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ہیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اہل الجنة میں سے ایک ہیں،
جن کے لیے نبوت کی زبان اطہر نے ارشاد فرمایاالحسن والحسین سیداشباب اھل الجنۃ(حسن (ع) اور حسین (ع) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں)
آپ نے رسول اکرم (ص) کے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گزاری، اورآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اہل بیت نبی پرپڑیں یہاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو زہر سے شہید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔
آل محمد(ص)کی سرداری مسلمات سے ہے علمائے کرام کااس پراتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشادفرمایاہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے والدبزرگواریعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔
حضرت حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت ص کوایک دن بہت زیادہ مسرورپاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیاوجہ ہے ارشادفرمایاکہ مجہے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے سردارہیں اوران کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہترہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہوگئی کہ حضرت علی صرف سیدہی نہ تہے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ میں حسنین کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکہے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔