مہر خبررساں ایجنسی نے کشمیر ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کشمیر میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی گئی آصفہ کے خاندان کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے لگیں۔ جس کے بعد آصفہ کے والد اور خاندان کے دیگر افراد آبائی علاقہ کٹھوعہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ آصفہ کےوالدامجدعلی نےعزیزوں کےساتھ کٹھوعہ کاعلاقہ چھوڑدیا۔زیادتی اور قتل کاشکار ہونے والی کمسن آصفہ کاگھرانہ 110کلومیٹرپیدل سفرکرکے ادھم پورپہنچ گیا۔ ایک ماہ مزیدپیدل سفرکرکےامجدعلی اوراسکےعزیزکشتواڑنقل مکانی کرجائیں گے۔
امجدعلی نے کہا کہ کٹھوعہ میں اب ہمارےخاندان کے لوگ محفوظ نہیں،بیٹی سےزیادتی اورقتل ہواتوسمجھا کہ محض چند لوگوں کاکام ہے مگر جب ریلیاں نکالی گئیں اورملزموں کوآزادکرا نےکےمطالبےبڑھےتوپتہ چلاہم تنہا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پہلےہی ایک بیٹی سےمحروم ہو چکے ہیں ،زندگی میں کبھی کٹھوعہ نہیں جائیں گے، مجدعلی نے فریاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کےساتھ جوہوااسےانسانی بنیادوں پردیکھاجائے،سیاستدان معاملےکوسیاسی رنگ دےرہےہیں۔
ادھر پولیس نے ملزمان کے خلاف چارج شیٹ عام کردی جس کے مطابق کمسن بچی کو اغوا کے بعد مندر میں رکھا گیا جہاں اسے تین افراد جنوری کے وسط میں مسلسل 4 روز تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے اور بعدازاں اسے گلا دبا کر قتل کردیا اور لاش مندر کے قریب ہی پھینک دی گئی۔پولیس کے مطابق زیادتی کرنے والے تین ملزمان میں سے ایک پولیس اہلکار ہے جب کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر سنجے رام بھی شامل ہے۔