مہر خبررساں ایجنسی نے غیر ملکی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بیلجیئم کے جنوبی علاقے والونیا میں پارلیمنٹ کی ماحولیاتی کمیٹی نے ایک متنازعہ قانون منظور کرتے ہوئے جانوروں کے حلال ذبیحہ اور کوشر پر پابندی لگادی ہے۔ جس پر دنیا بھر کے یہودی اور مسلمان حلقے شدید مذمت کررہے ہیں۔ والونیا میں اس قانون کی منظوری کے بعد بیلجیئم کے شمالی علاقے فلیمش کی پارلیمنٹ میں بھی ایسا ہی ایک قانون منظوری کےلیے پیش کیا جاچکا ہے جو متوقع طور پر 2019 تک بطور قانون نافذالعمل ہوجائے گا۔ کوشر اور حلال ذبیحہ پر پابندی کے قانون کو یورپین جیوئش کانگریس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہودیوں کے مذہبی حقوق پر " سب سے بڑا حملہ " قرار دیتے ہوئے شدید ترین الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مغربی یورپ کے قلب اور یورپی یونین کے عین وسط میں کیا جانے والا یہ فیصلہ وہاں آباد یہودیوں کےلیے واضح پیغام ہے کہ یورپ میں یہودی آج بھی ناپسندیدہ ہیں۔بیلجیئم میں مسلمانوں کی مذہبی نمائندگی کرنے والی کونسل نے بھی اس قانون کے خلاف مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے پہلے بھی اپنا مؤقف واضح کرچکی ہے جو آج تک جوں کا توں ہے۔ اس سے پہلے بیلجیئم میں مسلمانوں کی تنظیم نے بھی اس قانون کی منظور پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک غیر ضروری اور منافرت پر مبنی قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے عقیدے کے مطابق حلال ذبیحہ سے روکا جارہا ہے جو ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ عملاً بالکل یکساں ہے جس کے پہلے مرحلے میں کسی جانوروں کا گلا کاٹ کر کچھ دیر کےلیے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس کے جسم سے زیادہ سے زیادہ خون بہہ جائے۔ اس موقعے پر مسلمان ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتے ہیں جبکہ یہودی اپنے مذہبی کلمات ادا کرتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کسی بھی دوسرے طریقے پر ذبح کیا گیا جانور ان دونوں مذاہب میں ناقابلِ قبول اور حرام ہی رہتا ہے لیکن جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں عرصہ دراز سے اس طریقے کی شدید مذمت کرتی آرہی ہیں جن کا مؤقف ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے جانور کو بے ہوش کردینا چاہیے تاکہ اسے ذبح ہوتے وقت تکلیف سے نہ گزرنا پڑے۔
اجراء کی تاریخ: 9 مئی 2017 - 13:13
بیلجیئم کے جنوبی علاقے والونیا میں پارلیمنٹ کی ماحولیاتی کمیٹی نے ایک متنازعہ قانون منظور کرتے ہوئے جانوروں کے حلال ذبیحہ اور کوشر پر پابندی لگادی ہے۔