مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک روایت کے مطابق ابھی حضرت امام حسین (ع) پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ام الفضل بنت حارث نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کاایک ٹکڑا کاٹ کرمیری آغوش میں رکھا گیا ہے اس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔ اے ام الفضل خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد فرمانے کوتھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ نورنظررسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام بتاریخ ۳/ شعبان ۴ ء ہجری بمقام مدینہ منورہ بطن مادرسے آغوش مادرمیں آ گئے۔
ام الفضل کا بیان ہے کہ میں حسب الحکم ان کی خدمت کرتی رہی، ایک دن میں بچے کولے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آغوش محبت میں لے کر پیارکیا اور آپ رونے لگے میں نے سبب دریافت کیا توفرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے وہ بتلاگئے ہیں کہ یہ بچہ امت کے ہاتھوں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہید ہوگا اور اے ام الفضل وہ مجھے اس کی قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی دے گئے ہیں۔
اورمسند امام رضا ص ۳۸ میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا دیکھو یہ واقعہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے کوئی نہ بتلائے ورنہ وہ سخت پریشان ہوں گی، ملا جامی لکھتے ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھراس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے سرمبارک کے بال بکھرے ہوئے تھے اورچہرے پرگرد پڑی ہوئی تھی ، میں نے اس پریشانی کودیکھ کرپوچھا کیا بات ہے فرمایا مجھے ابھی ابھی جبرئیل عراق کے مقام کربلا میں لے گئے تھے وہاں میں نے جائے قتل حسین علیہ السلام دیکھی ہے اوریہ مٹی لایا ہوں اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسے اپنے پاس محفوظ رکھو جب یہ سرخ ہوجائے توسمجھنا کہ میرا حسین علیہ السلام شہید ہوگیا۔
خداوند عالم کی طرف سے ولادت امام حسین علیہ السلام کی تہنیت اور تعزیت
علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطراز ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کومیری طرف سے حسین علیہ السلام کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل علیہ السلام بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی منجانب اللہ اداکی جاتی ہے، یہ سن کرسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل علیہ السلام ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ مولا صلی اللہ علیہ وسلم ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین علیہ السلام “ کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بے یار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین علیہ السلام کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ سلام اللہ علیہا ہوگئے ۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جوحضرت علی علیہ السلام کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اوروہ حسین علیہ السلام کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبر ہونے کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ سلام اللہ علیہا نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایا جب میں نہ ہوں گا نہ تو سلام اللہ علیہا ہوگی نہ علی علیہ السلام ہوں گے نہ حسن علیہ السلام ہوں گے فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا فاطمہ سلام اللہ علیہا بالکل بے جرم وخطا صرف اسلام کی حمایت میں شہادت ہوگی۔
فطرس کا واقعہ
علامہ مذکور رقمطراز ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل علیہ السلام بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ ان کی نظر زمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھا کہ ایک فرشتہ زمین پر پڑا ہوا زاروقطار رو رہا ہے آپ اس کے قریب گئے اورآپ علیہ السلام نے اس سے ماجرا پوچھا اس نے کہا اے جبرئیل علیہ السلام میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرتا تھا میرا نام فطرس ہے جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ،مرضی معبود کے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہا ہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاں کنج تنہائی میں پڑاہوں ۔
اے جبرئیل علیہ السلام خدارا میری کچھ مدد کرو ابھی جبرئیل علیہ السلام جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیا اے روح الامین علیہ السلام آپ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک فرزند پیدا ہوا ہے جس کا نام حسین علیہ السلام ہے میں خدا کی طرف سے اس کی ادائے تہنیت کے لیے جا رہا ہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل علیہ السلام خدا کے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی درسے شفا اورنجات مل سکتی ہے جبرئیل علیہ السلام اسے ساتھ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین علیہ السلام آغوش رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جلوہ فرما تھے جبرئیل علیہ السلام نے عرض حال کیا، سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فطرس کے جسم کوحسین علیہ السلام کے بدن سے مس کر دو، شفا ہوجائے گی جبرئیل علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔
وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتا ہوا اپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجا پہنچا اورمثل سابق ستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرنے لگا، بعد از شہادت حسین علیہ السلام چوں برآں قضیہ مطلع شد“ یہاں تک کہ وہ زمانہ آیا جس میں امام حسین علیہ السلام نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ میں زمین پرجا کردشمنان حسین علیہ السلام سے جنگ کروں ارشاد ہوا کہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ توستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ ماتم کیا کر اوراس کا جو ثواب ہو اسے ان کے رونے والوں کے لیے ہبہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلا پرجا پہنچا اورتا قیام قیامت شب و روز حرم حسینی کا طواف کرتا رہے گا۔