مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کےچیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پانامہ لیکس پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق حکومتی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے گذشتہ ماہ 22 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پانامہ پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے وزارت قانون کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ جب تک مناسب قانون سازی نہیں ہوتی سپریم کورٹ پانامہ لیکس پر کمیشن نہیں بناسکتی۔جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے قانون سازی کی جائے، کیونکہ ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز )کے حتمی فیصلے تک جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔اپنے خط میں چیف جسٹس کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات کے لیے شریف خاندان کے افراد کے نام بھی نہیں بتائے گئے۔
واضح رہے کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیز کے انکشاف کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا، بعدازاں اپوزیشن جماعتیں پانامہ پیپرز لیکس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی غرض سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر متفق ہوئیں۔اپوزیشن جماعتیں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل چاہتی ہیں، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں۔اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ کمیشن پہلے وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کے خلاف 3 ماہ کے اندر تحقیقات کرے۔جس کے بعد پاناما لیکس میں شامل دیگر پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے، جس میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ دو روز قبل اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں وزیراعظم کے لیے ایک سوالنامہ تیار کیا گیا تھا جس میں ان سے لندن میں موجود جائیدادوں، آف شور کمپنیز اور ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے 7 سوالات کا جواب مانگا گیا تھا۔جبکہ وزیر اعظم نے ان سوالات کےجوابات دینے سے انکار کردیا ہے۔