مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے شہر کراچی میں پاکستان کے سماجی کارکن خرم ذکی کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سرسید تھانے میں درج کیا گیا، ایف آئی آر کے متن میں درج ہے کہ خرم ذکی کو اسلام آباد کی لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبدالعزیز اور کالعدم اہلسنت والجماعت کے اورنگزیب فاروقی کی جانب سے خرم ذکی کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سماجی رہنما خرم ذکی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اللہ ڈینو (اے ڈی) خواجہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
خرم ذکی کو گزشتہ رات نارتھ کراچی سیکٹر 11B میں ہوٹل کے باہر فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا تھا، جبکہ فائرنگ سے 2 افراد زخمی ہوئے تھے. بعد ازاں خرم ذکی کا عباسی شہید ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا، جہاں سے ان کی میت انچولی منتقل کی گئی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سے رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے بھی خرم ذکی کے قتل کا نوٹس لیا اور ایڈیشنل آئی جی اور کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر سے 48 گھنٹے میں رپورٹ طلب کر لی۔
خرم ذکی کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سرسید تھانے میں درج کیا گیا جبکہ مقدمے کے متن میں درج ہے کہ دو موٹر سائیکل سوار افراد نے ان پر فائرنگ کی۔
ایف آئی آر کے متن میں درج ہے کہ خرم ذکی کو اسلام آباد کی لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبدالعزیز اور کالعدم اہلسنت والجماعت کے اورنگزیب فاروقی کی جانب سے خرم ذکی کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔
خرم ذکی کا شمار سول سوسائٹی کے رہنماؤں میں ہوتا تھا اور وہ صحافت کے پیشے سے بھی منسلک رہ چکے تھے،
خرم ذکی سول سوسائٹی کے رہنما جبران ناصر کے ساتھ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف مظاہروں میں بھی شریک رہے۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی نے خرم ذکی کے قتل کی مذمت کی اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ادھر شیعہ مسلم تنظیموں نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خرم ذکی کے قتل میں وہابی دہشت گرد تنظیمیں ملوث ہیں۔ پاکستانی حکومت وہابی رہنماؤں کو مختلف سطح پر بچا رہی ہے جن کے دہشت گردوں کے ساتھ قریبی رابطے ہیں اور جو دہشت گردوں کے سرپرستی اور پرورش کررہے ہیں۔