مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی جانب سے داعش کو پاکستان میں آنے کی دعوت دینے پر ان کے خلاف مقدمے درج کرنے کیلئے ایک عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ وزارت داخلہ کی جانب سے مذکورہ درخواست پر جواب جمع کروائیں اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو کیس کی 18 مئی کو ہونے والی آئندہ کی سماعت میں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
جبران ناصر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دی جانے والی پٹیشن میں موقف اختیار کیا کہ مولانا عبدالعزیز نے جامعہ حفصہ کی طالبات کے اس مطالبے کی حمایت کی تھی، جس مں انھوں نے داعش کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی، تاکہ اُسامہ بن لادن اور 2007 میں لال مسجد آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کا بدلہ لیا جائے۔
جامعہ حفصہ کی طالبات کا نشر ہونے والا مذکورہ ویڈیو پیغام، جس میں انھوں نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو بدلے کیلئے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی، پر 2015میں پولیس کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھجوائی جانے والی رپورٹ میں ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
سکیورٹی ادارے پہلے ہی حکومت کو خبردار کرچکے ہیں کہ دہشت گرد گروپس سے تعلقات اور حکومت مخالف جذبات کی وجہ سے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز دارالحکومت میں امن و امان کی صورت حال کیلئے خطرہ ہیں۔
انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں ایسے وہابی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جن کے دہشت گردوں سے ظاہری اور پوشیدہ رابطے ہیں۔
پاکستان کی اہم انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے رواں سال وزارت داخلہ کو پیش کی جانے والی ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا گیا کہ 'لال مسجد مافیا' کے دہشت گرد گروپس اور زمین پر قبضہ کرنے والوں سے تعلقات قائم ہیں جبکہ وہ لال مسجد آپریشن کے بعد بننے والے دہشت گرد گروپ غازی فورسز کی تنظیم نو کررہے ہیں۔