مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی ترکی کے شہر استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے اختتام کے بعد انقرہ پہنچ گئے ہیں جہاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان ان کا آج سرکاری طور پر استقبال کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق ایران کے صدر ترک حکام کے ساتھ دوطرفہ تعلقات ، علاقائی امور اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کریں گے۔
عالمی ذرائع کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم کے تیرہویں سربراہی اجلاس میں عالم اسلام میں سعودی عرب کی طرف سے تفرقہ پیدا کرنے کی کوششوں کو ایران نے بھر پور انداز میں ناکام بنادیا اور ایرانی صدر اور ان کے ہمراہ وفد نے اسلامی تعاون تنظيم کے اختتامی بیانیہ پر اعتراض کرتے ہوئے سربراہی اجلاس کی اختتامی تقریب میں شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے سربراہی اجلاس کا اختتامی بیانیہ سربراہی اجلاس کی اختتامی تقریب میں پیش نہیں کیا گیا۔ایرانی صدر نے اسلامی تعاون تنظیم میں اتحاد اور یکجہتی پر زوردیا جبکہ سعودی عرب نے اختلاف اور افتراق پر تاکید کی۔ صدر حسن روحانی نےاسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسلام نے ہمیں محبت، اخوت اور امن و صلح کی تعلیم دی ہے اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ جرم و جنایت جہاں بھی ہوگا وہ جرم و جنایت ہی ہوگا چاہیے وہ جرم فلسطین میں ہو، چاہے وہ جرم لاہور، بیروت ،استنبول،دمشق، نیویارک پیرس یا برسلز میں ہو جرم جرم ہی ہے اورایسے جرائم کی جڑوں کو ختم کرنے کے لئے ہمیں غور و فکر ، باہمی اتحاد اور عزم راسخ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے اہم اور پہلا مسئلہ ہے اور ہم اس مسئلہ کو بھول کر چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں دشمن ہماری توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹانے کے لئے نت نئےمنصوبے بنا رہا ہے اسرائیل کی طرف سےغزہ کا محاصرہ اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ پیہم جاری ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ سب پر واضح ہے کہ نہ سعودی عرب ایران کی مشکل ہے اور نہ ایران سعودی عرب کی مشکل ہے مشکل در حقیقت جہل و نادانی اور تعصب ہے اور یہی جہل و نادانی اور تعصب عالم اسلام میں سب بڑی مشکل بنا ہوا ہے۔
صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران خطے میں پائدار امن کا خواہاں ہے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور بہترین روابط چاہتا ہے جس دن عراق کے سابق معدوم صدر صدام نے کویت پر حملہ کیا ایران نے سب سے پہلے اس کی مذمت کی اور عراقی اور کویتی عوام کو پناہ دی حالانکہ کویت نے آٹھ سالہ جنگ میں صدام کی بھر پور حمایت کی تھی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ جب دہشت گردحملہ کرکے بغداد اور اربیل کے قریب پہنچ گئے تو ایران نے عراقی حکومت اور عوام کی درخواست پر دہشت گردوں کامقابلہ کیا اور عراقی حکومت اور عوام کی بھر پور مدد کی۔
جب دمشق پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو ایران نے شام کی حکومت کی درخواست پر مدد بہم پہنچائی اور شامی زخمیوں کے لئے علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کیں، ایران شام کے ساتھ آج بھی کھڑا ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ایران نے اپنے ہمسایہ ممالک کی اسلامی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر مدد کی ہے اور آئندہ بھی اپنے اسلامی ممالک کی مدد کے لئے تیار ہے۔