مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے پانامہ لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں جب کہ ہم نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب نہیں تھے۔قوم سے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں آج پہلی بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لیے خدمت میں حاضر ہوا ہوں، مجھے ان گزارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 سالوں سے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جارہا ہے جس کے چند بنیادی حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگا سکیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے بچے ملک کے اندر کاروبار چلائیں تو الزامات اور تنقید کی جاتی ہے، اگر بیرون ملک اپنا کاروبار چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں، کرپشن یا ناجائز ذرائع سے کمانے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خاندان نے بینکوں سے لی گئی رقم میں ایک روپیہ بھی معاف نہیں کرایا اور پونے 6 ارب روپے کی واجب الادا رقم ادا کی جب کہ مجھے امید ہے ہمارے کاروبار کا یہ سارا پس مںظر قوم پر واضح ہوگیا، میں نے حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر رہتے ہوئے قومی امانت میں ذرا سے بھی خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے پانامہ لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے جو تحقیقات کرنے کے بعد فیصلہ سنائیں گے کہ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے۔واضح رہے کہ پاناما لیکس کی دستاویزات میں دنیا کی اعلیٰ ترین اور حکومتی شخصیات پر خفیہ طریقے سے دولت چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جب کہ الزامات کی بنیاد پر آئس لینڈ کے وزیراعظم نے شدید عوامی احتجاج پر استعفیٰ دے دیا ہے۔