سعودی عرب کی طرف سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں جاری رکھنے کی کوشش جب ناکام ہوگئی تو سعودی عرب نے ایران کے خلاف براہ راست معاندانہ اقدامات کا آغاز کردیا جس میں سعودی عرب کے ممتاز شیعہ عالم دین شيخ نمر باقر النمر کا بہیمانہ قتل اور اس کے بعد ایران سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ شامل ہے لیکن سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے خاتمہ سے ایران پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق  سعودی عرب کی طرف سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں جاری رکھنے کی کوشش جب ناکام ہوگئی تو سعودی عرب نے ایران کے خلاف براہ راست معاندانہ اقدامات کا آغاز کردیا جس میں سعودی عرب کے ممتاز شیعہ عالم دین کا بہیمانہ قتل اور اس کے بعد ایران سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ شامل ہے لیکن سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے خاتمہ سے ایران پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بلکہ عالمی سطح پر سعودی عرب کے اقدام کو جلدبازی اور غیر سنجیدگی پر مبنی قراردیا گیا۔ سعودی عرب کی ایران کے خلاف بوکھلاہٹ ہر روز نمایاں ہورہی ہے لیکن ایران اب تک سعودی عرب کے بزدلانہ اقدامات کو نظر انداز کرتا چلا آرہا ہے سعودی عرب اس سے قبل امریکہ کی پشت پر رہ کر ایران کے خلاف معاندانہ کارروائی کرتارہا ہے لیکن جب امریکہ  کو ایران کی مدبرانہ پالیسی کے مقابلے میں ہر سطح پر ناکامی کا سامنا ہوا تو اس نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ کو ذمہ داری سونپ دی کہ وہ خود ایران کے خلاف میدان میں وارد ہوجائے اور جو کام ایران کے خلاف امریکہ نہیں کرپایا اسے وہ خود انجام دے اور وہ کام مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے پر مبنی ہے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ سعود الفیصل 40 سال تک ایران کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اب اس کی ذمہ داری سعودی رعب کے امریکہ نواز وزیر خارجہ عادل الجبیر نے دوش پر لے لی ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرح سعودی عرب کو بھی ایران کے مقابلے میں شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑےگا ۔