مہر خبررساں ایجنسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے، جس سے آئندہ چند ماہ کے دوران ان کی پھانسی پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوگئی ہے.اطلاعات کے مطابق انہیں 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔
چیف جسٹس ایس کے سنہا پر مشتمل سپریم کورٹ کے ایک بینچ نےجماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نطامی کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کردی، جنھیں ایک بے رحم ملیشیا کے سربراہ کے طور پر قتل، ریپ اور چوٹی کے دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی.پراسیکیوٹر تورین افروز نے بتایا کہ 'عدالت نے 4 میں سے 3 جرائم میں پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا ہے۔ 72 سالہ مطیع الرحمٰن نظامی 2001 سے 2006 کے دوران حکومتی وزیر بھی رہ چکے ہیں.مطیع الرحمٰن نظامی کو اب 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران اپنے کردار پر پھانسی کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ انہیں اس سزا سے چھوٹ صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ اگر یہی عدالت اس مقدمے کا دوبارہ جائزہ لے یا پھر ملک کے صدر کی جانب سے ان کی رحم کی اپیل منظور کرلی جائے۔