وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود امریکی صدر براک اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے درمیان ہونے والے ای میلز کے تبادلے کو منظر عام پر نہیں لائی جائیں گی۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود امریکی صدر براک اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے درمیان ہونے والے ای میلز کے تبادلے کو منظر عام پر نہیں لائی جائیں گی۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ پورے امریکہ میں صدارتی امیدوار کے لئے انتخابی مہم جاری ہے اور ایسے وقت ای میلز کو جاری کرنا ان روایات کی خلاف ورزی ہو گی جن کے مطابق عہد صدارت کے دوران صدر کا تمام ریکارڈ صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس اصول کا پہلے بھی بھرپور دفاع کیا اور آئندہ بھی کریں گے کیونکہ اس طرح صدر اپنے دور اقتدار میں مفید مشورے اور تجاویز حاصل کر سکتا ہے اور یہ اصول انتظامی شاخ کی خود مختاری میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وائٹ ہاؤس اہلکار کا کہنا ہے کہ اوباما اور ہیلری کے درمیان ای میلز کے تبادلے کو اس وقت تک خفیہ رکھنا چاہتا ہیں جب تک موجودہ صدر اپنا عہدہ نہیں چھوڑ دیتے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے اپنے ایک نجی ای میل اکاؤنٹ کو سرکاری اور ذاتی سطح پر استعمال کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ریپبلکن حکام کی جانب سے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب کہ عدالت نے محکمہ خارجہ کو ہیلری کلنٹن کی ای میلز جاری کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ امریکی محکمہ خارجہ ان 55 ہزار ایم میلز کو ماہانہ بنیادوں میں جاری کرتا رہا جو ہیلری کلنٹن نے بھیجی تھیں یا وصول کی تھیں تاہم کچھ ای میلز کو حساس قرار دے کر جاری نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ ہیلری کلنٹن 2016 کے صدارتی انتخابات میں صف اول کی امیدوار ہیں اور انہوں نے اپنے ایک نجی ای میل اکاؤنٹ کو سرکاری اور ذاتی دونوں ای میلز کے لیے استعمال کیا تھا۔ دوسری جانب ہیلری کلنٹن نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ کہ اس میں ان کے لیے سہولت تھی اس لئے اپنے اکاؤنٹ کو سرکاری اور ذاتی ای میلز کے لئے استعمال کیا۔