مہر خبررساں ایجنسی نے غیر ملکی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں اگرموجودہ صورتِ حال جاری رہی تو 2020 تک غزہ کا علاقہ رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔ اقوامِ متحدہ کے تحت تجارت اور ترقی کی کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ 6 برسوں میں غزہ پر 3 جنگیں مسلط کی گئیں اور 8 سال سے معاشی اور امدادی پابندیوں سے غزہ کا علاقہ شدید متاثر ہوا ہے۔ یہ تباہی انسانوں کی وجہ سے ہوئی اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی انسانوں کی تیار کردہ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے نائب صدر حمدی شکورا نے کہا کہ گزشتہ سال ایک ماہ سے زائد رہنے والی اسرائیلی جنگ اور حملوں سے 5 لاکھ لوگ اب بھی بے گھر ہیں اور غزہ کے علاقے تباہی کا منظر پیش کررہے ہیں کیونکہ اس کا بہت سا حصہ برباد ہوکر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں متوسط طبقے کے پاس جو کچھ بچا تھا وہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور پوری آبادی کا انحصار غیرملکی امداد پر رہ گیا ہے۔ غزہ کی مجموعی قومی آمدنی 15 فیصد رہ گئی ہے اور بیروزگاری کی شرح 44 فیصد تک جاپہنچی ہے اور 72 فیصد گھرانے غذائی قلت کے شکار ہیں۔
جنگ کی وجہ سے غزہ اپنی مصنوعات باہر نہیں بھیج سکتا اور گھر بنانے کے لیے سیمنٹ اور اینٹیں تک دستیاب نہیں اور یوں غزہ ترقی کے بجائے پستی کی طرف جارہا ہے ۔ 2007 میں حماس کی جانب سے غزہ میں حکومت بنانے کے بعد مصر اور اسرائیل کی جانب سے غزہ شدید پابندیوں اور معاشی ناکہ بندی کا شکار ہے۔
شکورا کے مطابق بین الاقوامی برادری کی جانب سے مدد بہت مفید ہے لیکن بہت زیادہ پیسہ دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ان اسرائیلی اقدامات کو ختم کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے غزہ کی ترقی رکی ہوئی ہے اور غزہ کو ضروری اشیا کی صرف 2 فیصد مقدار ہی فراہم کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ مصر سے خفیہ سرنگوں کے ذریعے غزہ کو تمام ضروری اشیا فراہم کی جاتی تھیں لیکن مصری افواج نے تمام سرنگوں کو بند کرنے کے علاوہ کئی سرنگوں میں پانی چھوڑ دیا ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔