مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے سال 1392 ہجری شمسی اور بہار کے پہلے دن کے موقع پرحضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے لاکھوں زائرین اور مجاورین کے ایک عظیم اور شاندار اجتماع سے اپنےاہم خطاب میں گذشتہ سال 1391 ہجری شمسی میں ایرانی قوم کے دشمنوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر رکاوٹوں اور گمراہ پروپیگنڈے کے باوجود ایرانی قوم کی پیشرفت و ترقی کا جائزہ لیا اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں اساسی اور بنیادی نکات پیش کئے ، اقتصادی جہاد اور تیل کی درآمد سے وابستگي ختم کرنے اور بلند مدت اقتصادی پالیسیاں وضع کرنے اور دشمن کے شوم منصوبوں کے اجراء سے قبل سنجیدہ اور ہوشمندانہ اقدام کے بارے میں تشریح فرمائي، اور ایران میں انتخابات کے انعقاد کو ایرانی سیاست کا شاندار مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے ساتھ دوستی اورمحبت رکھنے والے تمام افراد اورسیاسی جماعتوں کو انتخابات میں بھر پور شرکت کرنی چاہیے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت بہت ضروری ہے کیونکہ ملک کے تمام اصلی مسائل میں صدارتی انتخابات بہت ہی اہم اور مؤثر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےاپنے اہم خطاب میں نئے سال کی آمد پر ایک بار پھر مبارکباد پیش کی، اور گذشتہ سال میں ملک کے کمزور اور قوی نقاط کا جائزہ لیا اور اس جائزے کی روشنی میں بلند مدت منصوبہ وضع کرنے کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: جس طرح انسان کو انفرادی، ذاتی اور شخصی طور پر اپنے دائمی محاسبہ کی ضرورت ہے، اسی طرح ملک کےقومی مسائل کا محاسبہ اور جائزہ بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گذشتہ امورکو ںظر میں رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر آئندہ کے لئے فیصلہ کرنے چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف ممالک ، دانشوروں اور اقوام کی جانب سے تجربات حاصل کرنے کے لئے ایرانی قوم کی کامیابیوں اور کارکردگیوں پر گہری اور دقیق نظر اور اسی طرح ایرانی قوم کےکمزور نقاط پر دشمنوں کی طرف سے بھی دقیق اور گہری نظر رکھنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس لحاظ سے بھی ایرانی قوم کو ملک کے شرائط کے بارے میں صحیح اور درست حقائق پر مبنی نگاہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صرف اقتصادی دباؤ، بعض کارخانوں کی پیداوار میں کمی اور مہنگائی جیسے مسائل کو مد نظر رکھنے اور ان کا جائزہ لینے کو غلط و ناقص جائزہ اور تحلیل قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے چیلنجوں کے میدان میں صحیح نگاہ یہ ہے کہ کمزورو ضعیف نقاط اور مشکلات کے ساتھ ساتھ ترقی و پیشرفت کے عظيم نتائج پر بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس صورت میں ایرانی قوم کی کامیابی اور سربلندی کا صحیح نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران قوم کو مفلوج کرنے کے بارے میں اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے سلسلے میں امریکی حکام کے صریح اور آشکارا بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے چلینج کے اس میدان میں دشمن کی دھمکیوں کو ہوشمندی اور عظیم ظرفیت کے ذریعہ فرصت میں تبدیل کردیا اور اس میدان میں بھی ایرانی قوم ایک کامیاب کھلاڑی کی طرح میدان سے کامیاب باہر آگئی جسے سبھی تحسین آمیز نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر ایسی نگاہ ملک کے شرائط پر ڈالی جائے تویقینی طور پر ایرانی قوم اس عظیم میدان کی فاتح ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: چيلنجز سے بھرے ہوئے اس میدان میں ایرانی قوم کی کامیابیاں ایسی واضح اور روشن ہیں جن کی مختلف ممالک کے دانشور، سیاسی ماہرین ، ممتاز شخصیات تعریف کررہے ہیں اور حتی ایرانی قوم کے بارے میں بری نیت رکھنے والے ممالک بھی ان کامیابیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں ۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی قوم کی پیشرفت سے ہمیشہ ناراض رہنے والے گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: یہ گروہ جو ایرانی عوام کا اصلی دشمن ہے اوروہ ایرانی قوم کی ترقی اور پیشرفت کر روکنے کے لئے دو طریقوں سے استفادہ کررہا ہے؛1) عملی رکاوٹ جس میں اقتصادی پابندیاں ، دھمکیاں، حکام اور قوم کے دانشوروں اور اعلی شخصیات کو فرعی اور غیر ضروری امور میں مشغول کرنا، 2) ایرانی قوم کی عظیم ترقیات کو پنہاں کرنے اور کمزور نقاط کو بڑھا چڑھا کر اور بڑا بنا کر پیش کرنے کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران قوم کے بد نیت دشمنوں کی جانب سے سال 1391 ہجری شسمی کو بڑی تلاش و کوشش کا سال قراردیتے ہوئے فرمایا: انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کا مقصد ایرانی قوم کو مفلوج کرنے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے، لہذا اگر ایرانی قوم ان کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑی ہےتو یہ ان کی آبروریزی اور شکست و ناکامی کا باعث ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد دو سوال پیش کئے: 1) ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز کہاں ہے؟ 2) ایرانی قوم کے دشمن کون لوگ ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز امریکہ ہے اور گذشتہ 34 برسوں سے آج تک جب بھی دشمن کا نام لیا جاتا ہے ایرانی قوم کا ذہن امریکہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکام کو اس مطلب کے بارے میں دقت کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ دشمن کا نام لیتے وقت ایرانی قوم کا ذہن ہمیشہ کیوں امریکہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایرانی قوم کے دشمنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز اور ایرانی قوم کا درجہ اول کا دشمن ہے لیکن امریکہ کے علاوہ ایرانی قوم کے کچھ اور بھی دشمن ہیں جن میں برطانیہ کی خبیث حکومت بھی شامل ہے جو خود مستقل نہیں بلکہ وہ امریکہ کی پیروکار اور اس کے تابع ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس مرحلے میں فرانسیسی حکومت کے بارے میں بھی ایک نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کو فرانسیسی قوم اور حکومت کے ساتھ کوئی مشکل نہیں رہی ہے لیکن حالیہ برسوں بالخصوص سرکوزی کی حکومت نے ایرانی قوم کے ساتھ عداوت اور دشمنی کی پالیسی کی داغ بیل ڈالی اور فرانس کی یہ غلط پالیسی اسی طرح جاری ہے اور فرانس کا یہ اقدام غیر سنجیدہ اور غیر دانشمندانہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائيل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیلی حکومت کی اتنی حیثیت اور وقعت نہیں ہے کہ وہ ایرانی دشمنوں کی صف میں شمار ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائیلی حکام کی طرف سے ایران کے خلاف فوجی حملے پر مبنی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر اسرائیل نےکسی غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب کیا تو اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب اور حیفا کو خاک کے ساتھ یکساں کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ ہمیشہ ایرانی قوم کے ان چند دشمنوں کو " عالمی برادری " کے نام سے تعبیر کرتا ہے جبکہ یہ چند ممالک عالمی برادری نہیں اور جو حقیقت میں عالمی برادری ہے اس کو ایران اور ایرانی قوم سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے معدود اور چند حقیقی دشمنوں کے بارے میں وضاحت اور سال 1391 ہجری شمسی میں ان کے معاندانہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں نے ایرانی قوم کے ساتھ ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ، گذشتہ سال کے اوائل سے ایران کے تیل کے شعبہ اور بینکی نظام کےخلاف شدید پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کیا اور ان معاندانہ اقدامات کے بعد بھی وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ ایرانی قوم کے دشمن تصور نہ کئے جائیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی اس پالیسی کو آہنی پنجہ پر مخملی دستانہ چڑھانے کی پالیسی کا حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: انھوں نے ظاہری فریب کے برعکس طے شدہ منصوبوں کے مطابق اپنی حرکت کا آغاز کیا اور انھیں توقع تھی کہ ایرانی قوم چند ماہ کے بعد ان کی منہ زوری اور تسلط پسندی کے سامنے تسلیم ہوجائے گی اور اپنی علمی اور سائنسی سرگرمیوں کا سلسلہ بند کردےگی لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایرانی قوم نے دشمنوں کی مرضی کے خلاف عمل کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کے مؤثر واقع ہونے کے بارے میں امریکیوں کی خوشی اور اس سلسلے میں بعض ایرانی حکام کے اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اقتصادی پابندیوں کا وہ اثر نہیں ہوا جیسا وہ چاہتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پابندیوں کا کچھ اثر ہوا بھی ہے تو وہ ایران کے اقتصاد کے تیل سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے اور اسی بنیاد پر آئندہ حکومت کے اصلی ترجیحی منصوبوں میں تیل سے وابستہ اقتصاد شامل نہیں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیل سے غیر وابستہ اقتصاد اور تیل کے کنویں مرضی کے مطابق بند کرنے کے بارے میں اپنے چند سال قبل کےبیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں بعض حضرات جو اپنے آپ کو ٹیکنوکریٹ تصور کرتے تھے وہ میری یہ بات سنکر مسکرا دیئے اور انھوں نے کہا کہ کیا ایسا کام امکان پذیر ہے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تیل سے غیر وابستہ اقتصاد تک پہنچنا امکان پذیر ہے لیکن اس کی اصلی شرط درست منصوبہ بندی اور اجراء ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 91 ہجری شمسی میں دشمنوں کی طرف سے انجام پانے والے معاندانہ اقدامات کی تشریح کے بعد ان کی سیاسی میدان میں کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے دشمنوں نے سیاسی میدان میں بھی ایران کو الگ تھلگ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن تہران میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے اجلاس اور اس اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر شرکت ، اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے ایران کی حیرت انگیز پیشرفت پرخوشحالی سے دشمن کے شوم منصوبے مکمل طور پر شکست و ناکامی سے دوچار ہوگئے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاسی میدان میں دشمنوں کے دیگر اقدامات میں ایرانی قوم میں شک و تردید ایجاد کرنے اور ایرانی قوم کو اسلامی نظام سے دور کرنے کی کوشش قراردیتے ہوئے فرمایا: بائيس بہمن کی عظیم ریلیوں میں عوام کی بھر پور شرکت اور اسلام اور انقلاب اسلامی کے بارے میں ان کے احساسات و جذبات کا اظہار دشمنوں کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سکیورٹی کے شعبہ میں دشمن کی بعض ناکام کوششوں اور علاقائي سطح پر ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی تلاش و کوشش کو دشمن کے دیگر سیاسی اقدامات کا حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: غزہ کی 8 روزہ جنگ کے پیچھے ایران کا طاقتور ہاتھ اور فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں اسرائیلی حکومت کی شکست ، ایران کی عدم موجودگی کی وجہ سےعلاقائي مسائل کے حل نہ ہونے کے بارے میں دشمنوں کا اعتراف ، ان میدانوں میں دشمن کی عداوتوں کے غیر مؤثر ہونے کا سبب ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کے دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ بڑے مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں جن میں گذشتہ سال کے دوران ایرانی قوم کی اندرونی صلاحیتوں کے فعال ہونے اور عظیم تعمیری کاموں کی تکمیل کے منصوبے شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود گذشتہ سال میں انجام پانےوالے ترقیاتی اور تعمیری کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تیل اور یورینیم کے جدید ذخائر کا انکشاف، بجلی پلانٹس اور آئیل ریفائنری کے شعبہ میں فروغ، انرجی اور روڈ کے شعبہ میں ترقیاتی کام، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اہم پیشرفت اور ناہید سٹلائٹ اور زندہ جانور کے ساتھ پیشگام سٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے ، پیشرفتہ جنگي جہاز بنانے ، جدید ترکیب پر مشتمل نئی دواؤں کی ساخت، علاقائي سطح پر نانو ٹیکنالوجی میں پہلے مقام کا حصول، سائنس و ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت، ملک میں طلباء کی تعداد میں اضافہ، اسٹیم سیلز کے شعبہ میں اہم کامیابی، ایٹمی اور جدید انرجی کے شعبوں میں پیشرفت ، ایرانی جوانوں اور سائندانوں کی اس سال میں پیشرفت کا مظہر ہیں جس میں دشمن نے ایرانی قوم کو مفلوج کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سال 91 ہجری شمسی کے نتائج اور کامیابیوں کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ دشمن ایک زندہ دل قوم کو دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ اپنے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سال 91 ہجری شمسی در حقیقت ایک تمرین اور مشق کا سال تھا جس میں ایرانی قوم نے اپنی توانائیوں اور ترقیات کو پیش کیا اور اس کے ساتھ اس نے اپنی بعض خامیوں کو بھی پہچان لیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ سال ملک کے کمزور اقتصادی نقاط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی تیل کے ساتھ وابستگي، بلند مدت اقتصادی پالیسیوں پر عدم توجہ، اور روز مرہ کے امور میں گرفتاری اقتصادی مشکلات کا اصلی سبب ہیں اور آئندہ آنے والی حکومت کو ان امور پر توجہ دینی چاہیےاور ملک کی بلند مدت اقتصادی پالیسیوں کو واضح ، آشکار اور منصوبہ بندی کے ساتھ تدوین کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی قوی بنیاد کے مشخص ہونے کو سال 91 ہجری شمسی کا ایک اور درس قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اور حکام جس قدر اتحاد ، ہمدلی اور تدبیر کے ساتھ کام انجام دیں گے دشمن کے معاندانہ اقدامات کے اثرات اتنے ہی کم ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد کے علاوہ سکیورٹی، عوام کی صحت و سلامتی ، سائنسی ترقیات، قومی عزت و استقلال جیسے مسائل کو بھی ملک کے اہم مسائل قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے گذشتہ سال میں اپنی کامیابیوں کے ذریعہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ عدم وابستگی پسماندگی کا سبب نہیں بلکہ پیشرفت اور ترقی کا موجب بنتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 91 ہجری شمسی میں ملک کے حقیقی شرائط کے بارے میں جامع تحلیل و تجزيہ پیش کرنے کے بعد گذشتہ سال کے مسائل سے آئندہ کے بارے میں دو نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پہلا نکتہ یہ ہے کہ دشمن کے منصوبہ کو ہوشیاری کے ساتھ قبل از وقت پہچان لینا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا: تہران کے دوا بنانے کے ریکٹر کے لئےبیس فیصد یورینیم افزودہ کرنے کے سلسلے میں ایرانی جوانوں کا اقدام اسی سلسلے کا ایک نمونہ ہے اور ملک کے تمام مسائل میں اسی قسم کے اقدامات انجام دینے چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی کاموں میں پیشقدمی کو حکومتوں، صنعتکاروں، کسانوں، سرمایہ کاروں، تاجروں،محققین، ،صنعتی اور علمی منصوبہ سازوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ ، اقتصادی ماہرین، سائنس اور ٹیکنالوجیپارک کے دانشوروں کی عظیم اخلاقی ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو دشمن کے حملوں کے مقابلے میں مضبوط ، مستحکم اور ناقابل تسخیربنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ موضوع پائدار اقتصاد کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس حصہ میں دوسرے نکتہ کے طور پر مذاکرات کے سلسلے میں امریکیوں کے متعدد پیغامات اور اظہارات کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی کچھ عرصہ سے متعدد طریقوں سے پیغام بھیج رہے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاملے پر الگ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن میں گذشتہ تجربات کی روشنی میں ان مذاکرات کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: امریکی گفتگو اور مذاکرات کے ذریعہ کسی منطقی راہ حل تک پہنچنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ امریکہ گفتگو کے ذریعہ فریق مقابل کو اپنے مطالبات کے سامنے تسلیم کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا ہم ہمیشہ امریکی مذاکرات کو مسلط کردہ مذاکرات سمجھتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کوبھی اس قسم کے مذاکرات کبھی پسند نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: البتہ مجھے مذاکرات سے کوئي مخالفت بھی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکیوں کے لئے چند مطالب بالکل واضح طور پر بیان کئے۔
پہلا مطلب جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا، وہ ایرانی حکومت کو تبدیل نہ کرنے پر مبنی امریکہ کے متعدد پیغامات ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں اسلامی نظام کی تبدیلی کے امریکی قصد و ارادے پر کبھی تشویش لاحق نہیں ہوئی کیونکہ جس دور میں امریکی واضح طور پر ایران کے اسلامی نظام کو تبدیل کرنے کی آشکارا بات کرتے تھے اس دور میں بھی وہ ایسا نہیں کرسکے اور اس کے بعد بھی امریکی ایسا نہیں کرسکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات میں امریکیوں کی صداقت کو دوسرے موضوع کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہیں لیکن امریکی ہماری بات پر یقین نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ انھیں یقین نہیں آتا ہے تو ایسے شرائط میں ہم کیسے مذاکرات میں امریکیوں کی بات کو سچا مان سکتے ہیں جبکہ ماضی کی تاریخ امریکیوں کے جھوٹ سے بھری پڑی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارا خيال یہ ہے کہ مذاکرات کی تجویزامریکہ کی حکمت عملی ہے اور وہ اپنی اس حکمت عملی کے ذریعہ عالمی رائے عامہ اور ایرانی عوام کو فریب دینا چاہتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر امریکیوں کو یہ بات عمل میں ثابت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں امریکیوں کی ایک تبلیغاتی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انھوں نے بعض موارد میں کہا ہے کہ ایران کے رہبر کی جانب سے بعض افراد نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں جبکہ یہ بات بالکل جھوٹی ہے اور اب تک کسی نے بھی ایران کے رہبر کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مختلف حکومتوں نے بعض عارضی موضوعات کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے لیکن ان مذاکرات میں بھی حکومتی افراد رہبری کی ریڈ لائنوں کی رعایت کرنے کے پابند تھے اور آج بھی ریڈ لائنوں کی پابندی ضروری ہے۔۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں تیسرے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران کے ایٹمی مذاکرات کسی منطقی نتیجے تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر امریکی حقیقت میں ایران کے ایٹمی معاملے کا حل چاہتے ہیں تو یہ حل بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ایران کے یورینیم افزودہ کرنے کے حق کو تسلیم کرلیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں تشویش دور کرنے کے لئے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی نگرانی کو سبب مطمئن عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تجربات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایٹمی معاملے کے حل کی تلاش و کوشش میں نہیں ہے بلکہ وہ ایرانی قوم کو مفلوج کرنے اور اس پر دباؤ قائم کرنے کے لئے اس معاملے کو باقی رکھنے کے حق میں ہے لیکن دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہوجائیں گي وہ ایرانی عوام کو مفلوج نہیں کرسکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں آخری نکتہ کے طور پر امریکیوں کو ایک راہ حل پیش کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر امریکی صداقت کے ساتھ تمام معاملات حل کرنا چاہتے ہیں تو راہ حل کے سلسلے میں ہماری تجویز یہ ہے کہ امریکہ اپنی رفتار اور گفتار میں ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی ترک کردے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ 34 برسوں میں ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی معاندانہ پالیسیوں اور ان کی شکست و ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر امریکہ کی یہ پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو پھر بھی انھیں شکست ہی نصیب ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر 24 خرداد کو ملک کے صدارتی انتخابات کے اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات سیاسی کامیابی ، اسلامی نظام کے اقتدار ، قومی عزم اور نظام کی عزت و آبرو کا مظہر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کو بڑی اہمیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کی انتخابات میں بڑے پیمانے پر شرکت سے ملک میں امن و سلامتی اور دشمن کو مایوسی ملے گی اور دشمن کی دھمکیاں غیر مؤثر ثابت ہوں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام پر اعتقاد رکھنے والے تمام سیاسی گروہوں کو انتخابات میں شرکت کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ سے متعلق نہیں ہیں بلکہ ان تمام گروہوں اور احزاب کے لئے انتخابات میں شرکت ضروری ہے جن کے دل ملک کے استقلال اور قومی مفادات کے لئے تڑپتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انتخابات سے روگردانی ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جو انقلاب کے مخالف ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں عوام کی رائے کو فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: صدارتی امیدواروں میں اصلح امیدوار کی تشخیص بہت اہم ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ قابل وثوق افراد کے ساتھ مشورے کے ذریعہ اصلح امیدوار کا انتخاب کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: رہبری کا ووٹ ایک ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ یہ ووٹ کس کو ملےگا اور کسی خاص فرد کے متعلق رہبری کی نظر کے بارے میں ہر قسم کی بات غلط ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام سے سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اصلح فرد کی شناخت کے سلسلے میں پروپیگنڈوں اور ایس ایم ایس کے پیغامات سے متاثر نہ ہوں جن کا آجکل کافی رواج ہوگیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےسب کو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: سال 88 کے فتنہ کا آغاز اسی وجہ سے ہوا کہ ایک گروہ نے قانون اور عوام کی رائے کے سامنے تسلیم ہونے سے انکار کردیا اور عوام کو تشدد کے لئےسڑکوں پر آنے کی دعوت دی اور یہ ناقابل تلافی جرم تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: خوش قسمتی سے شبہات کو دور کرنے کے لئے قانون میں تمام راہیں موجود ہیں لہذا سب کو عوام کی اکثریت آراء کا احترام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئندہ صدر کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آئندہ صدر کو گذشتہ صدر کی تمام خوبیوں کا حامل اور اس کی تمام خامیوں اور کمزوریوں سے دور رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی انتخاب میں عوام کا انتخاب بہترین پیشرفت اورشاندار تکامل کا مظہر ہونا چاہیے اور گذشتہ انتخابات کی نسبت اسے زیادہ جوش و ولولہ سے سرشار ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: جو لوگ صدارتی انتخابات میں نامزد ہونا چاہتے ہیں انھیں انقلاب اسلامی اور اس کے اقدار کا پابند ہونا چاہیے، انھیں قومی مفادات کی حفاظت کا پابند ہونا چاہیے اور انھیں عقل جمعی باہمی صلاح و مشورے اور تدبیر کے ذریعہ ملک کو چلانے کا اعتقاد رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل خراسان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور آستان قدس رضوی کے متولی آیت اللہ واعظ طبسی نے امام رضا علیہ السلام کے زائرین کو خوش آمدید کہا اور اس سال کے نام اور نعرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سیاسی اور اقتصادی رزم و جہاد کے سال میں ایران کی ہوشیار اور بصیر قوم مختلف سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرےگی اور مشکلات کو باہمی تعاون اور ہمدلی کے ساتھ حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔