مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر مشہد مقدس میں حضرت امام رضا(ع) کے حرم مبارک میں کئي ملین زائرین اور مشہد کے عوام سے اپنے اہم خطاب میں مختلف شعبوں میں ترقی وپیشرفت اور عدل و انصاف کے فروغ کی تشریح کی اور درست مصرف کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے ساتھ دسویں مرحلے کے صدارتی انتخابات اور اسی طرح ایران و امریکہ کے روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کی عظيم قوم اپنی آمادگي اور موجودہ مثبت اقدامات کے پیش نظر انقلاب اسلامی کے چوتھے عشرے کو عدل و انصاف اور ترقی و پیشرفت کے بنیادی اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں بہت بڑا اور اہم قدم اٹھائے گي۔
عوام اور زائرین کا یہ عظیم اور شانداراجتماع امام رضا(ع) کے حرم مبارک کے جامع رضوی صحن میں منعقد ہوا ، اس موقع پر رہبر معظم نےعید نوروز اور نئے سال کی آمد کے موقع پر عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تین عشروں میں ملک کےمختلف مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں ممتاز شخصیات ، حکام اورمدیروں کے گرانقدر تجربات ،کئی ملین تعلیم یافتہ، دانا اور بانشاط جوانوں کی موجودگي ، بنیادی آئین کی دفعہ 44 جیسے اہم فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے ،سبسیڈی کو بامقصد و مؤثر بنانےاور حکام کے صوبائی اور ملک کے دور و دراز علاقوں کے دورے، نیز مختلف سائنسی ، مواصلاتی اور ارتباطاتی شعبوں میں بنیادی ڈھانچےکی تعمیرات ایسے عوامل ہیں جن کی بدولت ملک کی وسیع و سریع پیشرفت اور ترقی کےسامان فراہم ہوگئے ہیں اور چوتھا عشرہ جو آج سے شروع ہوگيا ہے وہ منصوبہ سازی اور سنجیدہ کوششوں کے سائے میں حقیقی معنی میں عدل و انصاف اور ترقی اور پیشرفت کے عشرے میں تبدیل ہوجائےگا ۔
رہبر معظم نے پیشرفت کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف، طبقاتی فاصلوں میں کمی، وسائل و امکانات سے استفادہ میں برابری، ملک کے مختلف علاقوں میں وسائل کے استفادے میں پیدا ہونے والے فاصلے میں کمی کو حقیقی عدل و انصاف کے معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: ان بڑے مقاصد تک پہنچنا سخت ضرور ہے لیکن ان کو عملی جامہ پہنانا بھی ممکن ہے اور باہمی جد وجہد اور تلاش و کوشش کے ذریعہ ہم ان مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں ۔
رہبر معظم نے عدالت کے مصادیق کی تشریح اور سماجی اور اقتصادی بد عنوانیوں کے ساتھ مسلسل اور ٹھوس مقابلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عدالت اور پیشرفت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مؤمن ، مخلص، باتدبیر اور پختہ عزم کے مدیروں کی سخت ضرورت ہے۔
رہبر معظم نے اپنے نوروز کے پیغام میں اشیاء کے استعمال اور مصرف میں اسراف سے پرہیز اوردرست مصرف کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسراف سےپرہیز کا عدالت و پیشرفت کے فروغ میں بنیادی کردار ہےکیونکہ اقتصادی، ثقافتی اور اجتماعی لحاظ سے اسراف کی وجہ سے مختلف اور گوناگوں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اوراسراف سے ملک کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہوتاہے۔
رہبر معظم نے کفایت شعاری کو صحیح اور درست ، کارآمد اور مفید مصرف قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ غلط طریقوں ، سنتوں اور عادتوں کی وجہ سے اسراف کو جنم ملا ہے اور اس کی وجہ سے پیداوار اور مصرف کے درمیان پائي جانے والی نسبت کوشدید نقصان پہنچا ہے روٹی کی پیداوار کا تیسرا حصہ اور پانی کی پیداوار کا پانچواں حصہ عملی طور پر ضائع اور برباد ہوجاتا ہے جبکہ ان سے بہت سی مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے، ایران میں انرجی کا خرچہ دنیا میں انرجی کے خرچہ کی بانسبت دو گنا ہے ہمارے ملک میں اجناس کی پیداوار کی نسبت اس پر انرجی کا خرچہ پیشرفتہ ممالک کی نسبت آٹھ گنا زيادہ ہے۔
رہبر معظم نے بے جا اخراجات اور اسراف سے اجتناب کو دینی اور عقلی مسئلہ قراردیا اور قومی سطح پر اسراف ، پانی اور بجلی فراہم کرنے کے نظام میں فرسودگي ، اداروں میں بے جا اخراجات، بے فائدہ دوروں اور حکام کے زرق و برق کی طرف توجہ مبذول فرمائي۔
رہبر معظم نے اس سلسلے میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: صحیح مصرف و خرچ کرنا اوراسراف سے مقابلہ کرنا بیان و گفتگو کے ذریعہ ممکن نہیں ہے بلکہ قوہ مجریہ اور مقننہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح مصرف اور اسراف سے بچنے کے لئے ایسا قانون وضع اور نافذکریں جس میں پیداوار، صحیح مصرف اور دوبارہ استفادہ کرنے کا شاندار نمونہ جلوہ گر ہو۔
رہبر معظم نے حرم رضوی میں زائرین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں صدراتی انتخابات کے دسویں مرحلے کی طرف بھی عوام کی توجہ مبذول کی۔
رہبر معظم نے انتخابات کو اسلامی نظام کا ایک اہم ستون قراردیتے ہوئے فرمایا: دینی عوامی حکومت بیان کے ذریعہ سے تشکیل نہیں پاتی بلکہ اس میں قوم کی شراکت ، پختہ عزم و ارادہ اور ملک کے تحولات میں عوام کے عاطفی ، عقلائی اور فکری رابطے کی اہم ضرورت ہے اور عوام کی وسیع پیمانے پر شراکت اور صحیح انتخابات کے بغیر اس مسئلہ کا محقق ہونا ممکن نہیں ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: انتحابات ملک کو صحیح اور درست چلانے اور اس کا مستقبل تابناک بنانے کے لئے عوام کی ایک عظیم سرمایہ کاری اور امانت ہےاور بیلٹ بکس میں جو رائے ڈآلی جاتی ہے وہ اہم ہے اور اس سے قومی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
رہبر معظم نے صدارتی انتخابات کے امیدواروں کی توجہ بعض نکات کی طرف مبذول کی ۔
رہبر معظم نے انتخابات کے موجودہ اور آنے والے امیدواروںسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: توجہ کیجئے انتخابات صرف قدرت تک پہنچنے کا وسیلہ نہیں ہیں بلکہ ملک کی توانائی میں ارتقاء ، قومی اقتدار میں اضافہ اور قوم کو آبرو مند بنانے کا وسیلہ ہیں لہذا اپنی رفتار اور تبلیغات میں اس مسئلہ پر خاص توجہ مبذول کریں کوئي بھی امیدوار اپنی انتخاباتی مہم میں ایسی بات نہ کرے جودشمن کی طمع اور لالچ کا سبب قرارپائے۔
رہبر معظم نے دسویں صدارتی انتخابات میں منصفانہ تنقید اوررقابت کے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ میں سے ہر شخص اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دوسرے کی بات کو رد کرےگا لیکن اس میدان میں انصاف سے کام لیں اور حقائق کو چھپانے کی کوشش نہ کریں ۔
رہبر معظم نے فرمایا :صدارتی انتخابات کے میدان میں شرکت کی فضا سب کے لئے ہموارہے امیدوار اپنے آپ کوعوام کے سامنے پیش کریںتاکہ عوام اپنی آگاہی کے ساتھ جس کو چاہیں ووٹ دیں۔
رہبر معظم نے بعض ایسےافراد پرتنقید کی جو 22 خرداد کے انتخابات میں ابھی سے عوام کے ذہن میں بد گمانی اورخدشہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں آپ نے فرمایا: اب تک ملک میں 30 انتخابات منعقد ہوچکے ہیں اور ہر دور کے حکام انتخابات کے درست اور صحیح و سالم منعقد کرانے کی گارانٹی اورضمانت دیتے ہیں اور اسی وجہ سے عوام ان لوگوں کے فریب نہیں آئیں گے جو انتخابات کو ابھی سے متزلزل کرنے اور ان میں خدشہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: میں حکام کو سفارش کرتاہوں کہ وہ انتخابات کو صحیح و سالم منعقد کرائیں اور اس طرح عمل کریں کہ امیدواروں کے لئے راہیں ہموار ہوں اور عوام بھی ذوق وشوق اور نشاط کے ساتھ شرکت کریں اور جس کو چاہیں ووٹ دیں۔
رہبر معظم نے انتخابات کے بارے میں اپنے ووٹ اورمؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ احتمالات بیان کئے جاتے رہے ہیں اور بیان کئے جائیں گے لیکن میراایک ہی ووٹ ہے جو میں بیلٹ بکس میں ڈالوں گا اور میں اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں کہتا ہوں کہ کس کو رائے دیں یا نہ دیں کیونکہ اس کی تشخیص خودعوام کے دوش پر ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: میں کبھی حکومت کا دفاع یا اس کی حمایت کرتا ہوں اور بعض لوگ اس کا غلط مطلب پیش کرتے ہیں جبکہ میں نے ہمیشہ حکومتوں اور ملک کے تمام خدمتگذاروں کی حمایت کی ہےخصوصا جب دیکھتا ہوں کہ ایک حکومت محرومین کی خدمت میں سب سےزیادہ فعال و سرگرم ہے اور ظلم و استکبار کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتی ہےاور اس کے خلاف غیر منصفانہ حملے بھی ہوتے ہیں میری ان باتوں کا انتخابات سے کوئی ربط نہیں اور نہ ہی یہ انتخاباتی مؤقف کا اعلان ہیں۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب کے اختتامی حصے میں امریکہ اور ایران کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم نے امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور اس کے ساتھ تعلقات کو انقلاب اسلامی کے آغاز سے ہی ایرانی عوام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے بہت بڑی آزمائش قراردیا اور امریکہ کی دونوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی انقلاب اسلامی اور ایرانی عوام کے ساتھ مسلسل و پیہم دشمنی و بد رفتاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی دشمنی میں انقلاب مخالف افراد کو اکسا یا، ایران کی تقسیم کے حامی گروہوں اور دہشت گردوں کو مالی مدد فراہم کی اور با وثوق ذرائع کے مطابق امریکہ کی طرف سے اب بھی ان گروہوں کی مدد کا سلسلہ جاری ہے اور ایران اور پاکستان کی سرحد پر سرگرم شرپسندوں کو امریکہ کی طرف سے مدد مل رہی ہے۔
رہبر معظم نے امریکہ کی طرف سے ایران کے کئی ارب ڈالر اور ایرانی عوام کے اموال و اثاثوں کو منجمدکرنے ، ایران پر حملے کے لئے صدام معدوم کو ہری جھنڈی دکھانے اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں عراق کی بعثی حکومت کی مکمل حمایت کرنے، اس جنگ میں ایران کے تین لاکھ جوانوں کے شہید ہونے ، مسلط کردہ جنگ کے آخری سال میں ایران کے مسافر طیارے پر امریکہ کے میزائل حملے میں تین سو عورتوں، بچوں اور مردوں کے شہید ہونے کوایسے اقدامات قراردیا جو ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی معاندانہ پالیسی کا عکاس ہیں اورکیا ایرانی عوام امریکہ کے مذکورہ اقدامات کو فراموش کرسکتے ہیں؟
رہبر معظم نے ایرانی عوام کے خلاف تیس سال تک اقتصادی پابندیوں ، واشنگٹن کی طرف سے ان دہشت گردوں کی حمایت جنھوں نے ایران میں بہت سے لوگوں کا قتل عام کیا، علاقہ میں بحران پیدا کرنا، صہیونی جرائم پیشہ حکومت کی بے دریغ حمایت، ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی بار بار دھمکی کو ایرانی عوام کے ساتھ امریکہ کی مسلسل دشمنی کے علائم قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تیس برسوں میں امریکی حکام نے ایران عوام کی کئی بار توہین کی حتی ان میں سے بعض نے ایران کی شریف اور عظیم عوام کو بالکل نابود کرنے کا بھی مطالبہ کیاتھا۔
رہبر معظم نے امریکہ کی نئی حکومت اور نئے صدر کے برسراقتدار آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ کہتے ہیں ہم نے ایران کی طرف ہاتھ بڑھائے ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اگر فریب دینا چاہتا ہے تو اس کے اس اقدام کی کوئی قدر قیمت نہیں ہے۔
رہبر معظم نے امریکی حکام کی طرف سے عید نوروز کے موقع پر ایرانی عوام کو مبارک باد دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حتی مبارک باد کے اس پیغام میں بھی ایرانی عوام پر دہشت گردی کی حمایت اور ایٹمی ہتھیار بنانے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں ، کیا یہ مبارک بادی کا پیغام ہے یا گذشتہ الزامات کی تکرار؟
رہبرمعظم نے فرمایا: ہمیں معلوم نہیں کہ امریکہ میں فیصلے کرنا کس کے ہاتھ میں ہیں امریکی صدر یا کانگریس یا پس پردہ عناصرکے ہاتھ میں ہیں لیکن ہم بہر حال میں تاکید کرتے ہیں کہ ایرانی عوام اپنے سے متعلق مسائل کے بارے میں عقل و منطق پر عمل کرتی ہے اوراحساسات و جذبات سے کام نہیں لیتی۔
رہبر معظم نے مذاکرات اور امریکی صدر کی طرف سے چینج وتبدیلی کےنعروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر آپ کی ادبیات میں کوئی معمولی سی تبدیلی رونما ہوئی ہے تو بتائیں، کیا آپ نے ایرانی عوام کے ساتھ دشمنی ختم کردی ہے؟ کيا آپ نےایران کے منجمد اثاثوں کو آزاد کردیا ہے؟ کیا آپ نے اقتصادی پابندیوں کو ختم کردیا ہے؟ کیا آپ نےایران کے خلاف غلط پروپیگنڈوں اور سازشوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ کیا آپ نے اسرائیل کا دفاع اور اس کی بلا شرط حمایت کا عزم ترک کردیا ہے؟
رہبر معظم نے فرمایا: تبدیلی صرف الفاظ اور بد نیتی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے اگر آپ گذشتہ اہداف کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں اورروش کو بدلنا چاہتے ہیں تو یہ تبدیلی نہیں بلکہ مکر و فریب ہے ، اکر آپ حقیقت میں تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کو عمل کے ذریعہ ثابت کریں ،بہر حال تمام امریکی حکام اور دوسرے افراد جان لیں کہ ایرانی عوام کو نہ فریب دیا جاسکتا ہے اور نہ ڈرایا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم نے امریکہ میں امریکی حکام کی طرف سے تبدیلی اور چینج کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم نہیں بدلوگے تو سنت الہی اور قومیں تم کو بدل دیں گی۔
رہبر معظم نے امریکی حکام سے سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر امریکہ کے بارے میں پائی جانے والی نفرت کے بارے میں غور وفکر کریں اور مستکبرانہ پالیسیاں ، دوسری قوموں پراپنی خواہشات مسلط کرنے کی کوششیں اور مختلف مسائل میں متضاد مؤقف اپنانے جیسی حرکات کو ترک کردیں کیونکہ یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر امریکہ کے بارے میں نفرت پائی جاتی ہے۔ آپ ان حقائق سے عبرت حاصل کریں، اور اپنے ملک کی بھلائی اور اصلاح کے لئے اس قسم کی پالیسیوں اور رفتار کو ترک کردیں اس صورت میں آپ کا چہرہ عالمی رائے عامہ میں بتدریح تبدیل ہوتا چلاجائے گا۔
رہبر معظم نے فرمایا: میری باتوں کا بغور مطالعہ کریں اور ان کو ترجمہ کے لئے صہیونیوں کے ہاتھ میں نہ دیں بلکہ نیک انسانوں کے ساتھ مشورہ کریں ۔
رہبر معظم نے اس حصہ میں اپنی گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر امریکی حکومت کا طریقہ کار اور اس کی پالیسیاں وہی تیس سال پرانی پالیسیاں ہیں تو ایرانی عوام کا مؤقف بھی وہی تیس سال پرانا ہے جو اب سب سے زیادہ تجربہ کار اور پائدار بن گئی ہے۔ رہبر معظم نے فرمایا: ایرانی عوام کو لالچ اور دھمکی آمیز زبان بالکل بھی پسند نہیں ہے البتہ ہمارے پاس امریکہ کے نئے صدر اور نئی حکومت کا کوئی سابقہ مؤقف موجود نہیں ہے لہذا ہم ان کے عمل کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب کے اختتام پر حضرت امام خمینی (رہ) کی ہمسر کی دردناک رحلت پر ان کے پسماندگان اور خاندان والوں کو تعزيت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ عظیم خاتوں تمام مشکلات اور آزمائش کی گھڑیوں میں صبر و استقامت کے ساتھ حضرت امام (رہ) کے ہمراہ رہیں ، خداوند متعال حضرت امام خمینی (رہ) ان کی ہمسر اور ان کے فرزندوں کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے اور ہماری قوم کو ہمیشہ امام خمینی (رہ) کا قدردان قراردے۔
رہبر معظم کے خطاب سے قبل صوبہ خراسان رضوی میں نمائندہ ولی فقیہ اور حرم رضوی کے متولی آیت اللہ طبسی نے عید نوروز اور نئے سال کی آمد پر مبارکباد پیش کی اور بیس سالہ منصوبہ تک سرعت سے پہنچنےکے لئےصحیح اور درست مصرف کو اہم قراردیا۔