شہید یحییٰ سنوار کا مزاحمتی ہیرو کے طور پر کردار اور جنوبی لبنان میں صیہونی رجیم کی فوجی کمزوری عرب دنیا کے اہم اخبارات کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: زمینی جنگ میں ہمیشہ شکست کھانے والی صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطین میں اپنی فتح کا تاثر قائم کرنے کے لئے دہشت گردانہ کاروائیوں کا سہارا لے رہی ہے، تاہم اسے اس محاز پر بھی رسوائی کا سامنا ہے۔

اس سلسلے میں عرب اخبارات نے شہ سرخیاں جمائی ہیں:

روزنامہ رائے الیوم نے یحییٰ سنوار کی شہادت کے بارے میں لکھا: ہم کہتے ہیں کہ تحریک حماس یحییٰ سنور کی شہادت سے ختم نہیں ہوگی، جس کی کئی وجوہات ہیں: کیونکہ یہ تحریک دشمن عناصر کی طرف سے اپنے قائدین کے قتل کو مزاحمت کے راستے میں معمول کا حصہ سمجھتی ہے اور ہمیشہ ان حالات کے لیے خود کو تیار رکھتے ہوئے متبال کے طور پر نئے رہنماؤں کو سامنے لے آتی ہے۔

اس تحریک کے قائدین کا ڈھانچہ سنوار کی شہادت سے پہلے مرتب کیا گیا تھا تاکہ کسی رہنما کی شہادت سے عمومی ڈھانچے کو نقصان نہ پہنچے اور اسے مرکزی طور پر نہیں بلکہ گروہی طور پر منظم کیا جائے۔ 

تل ابیب کا خیال تھا کہ غزہ پر لشکر کشی کرکے اس پٹی کے صوبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے سے حماس سے وابستہ گروپوں کے درمیان ہم آہنگی میں خلل پڑے گا، لیکن یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ بلکہ سنوار کی آخری سانس تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے ہتھیار کے ساتھ میدان جنگ میں شہید ہونے کے انداز نے نہ صرف صہیونیوں کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا بلکہ انہیں ایک تاریخی ہیرو بنا دیا اور بہت سے نوجوان فلسطینی اس عظیم شہید کے نقش قدم پر چلیں گے۔

 روزنامہ القدس العربی نے بھی اس حوالے سے لکھا ہے: شہید سنوار نے صیہونی حکومت کو جو خوفناک ضرب لگائی اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے اور وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑتے رہے۔

صہیونی میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کے برعکس اس نے خود کو اسرائیلی قیدیوں کے درمیان زیر زمین سرنگوں میں نہیں چھپا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ صہیونی دشمن کے خلاف خود کو دوبارہ منظم کرنے کے اعتبار سے بھی فلسطینی مزاحمت کی طاقت پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا ہے۔

  لبنانی روزنامہ الاخبار نے اس ملک کے جنوب میں جاری صورت حال کے بارے میں لکھا ہے: جنوبی لبنان پر صیہونی حکومت کی زمینی جارحیت کے آغاز کو تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی اس علاقے میں دشمن کے لیے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ حزب اللہ کے مجاہدین دشمن کے نصف سے زیادہ ٹینک تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تل ابیب کے پاس لبنان اور غزہ میں ماضی کے تجربات کو دہرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ جنگی طیاروں اور ڈرونز کی جانب سے فوج کی فضائی مدد کے باوجود پیش قدمی نہیں ہو رہی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات مزید واضح ہوتی جا رہی ہے کہ تل ابیب نے غزہ اور لبنان میں خاص طور پر 2006 میں اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ہے، صیہونیوں نے بکتر بند گاڑیاں اور ریموٹ کنٹرول ڈرون میدان جنگ میں بھیج کر مجاہدین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی، لیکن انہیں پہلے سے لگائی گئی تباہ کن کمین کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ہمیشہ کی طرح بھاگنے میں عافیت جانی۔

شام کے اخبار الوطن نے خطے کی صورت حال کے بارے میں لکھا ہے: ایران کے میزائل آپریشن وعدہ صادق 2 نے صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک اور فوجی اہداف کو خاک میں ملا دیا، اس ملک کی مزاحمتی طاقت کو ثابت کیا کہ جس نے صیہونی رجیم اور امریکہ دونوں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور نیتن یاہو کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ موجودہ حالات میں امریکہ کو براہ راست ملوث کرنا چاہتا ہے۔


 امریکی سیاسی تجزیہ نگار ٹیڈ اسنائیڈر نے اپنے مضمون میں لکھا: ایران نے اسرائیل کے فضا میں گھس کر بیلسٹک میزائلوں سے اہم فوجی علاقوں کو نشانہ بنانے میں اپنی بھرپور طاقت کا اظہار کیا ہے جب کہ دوسری جانب حزب اللہ اپنے تیز رفتار اور طاقتور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل کے فضائی نظام کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئی ہے۔


 روزنامہ المراقب العراقی نے مزاحمتی محور کی کارروائیوں کے بارے میں لکھا: غزہ اور لبنان میں عام شہریوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں اضافے کے ساتھ اسلامی مزاحمت اس وقت صیہونی غاصبوں اور امریکیوں کے خلاف مزید کارروائیاں کر رہی ہے۔

ان فورسز کے پاس اہداف کا ایک مجموعہ ہے جسے وہ حالات کے مطابق مقبوضہ زمینوں کے قلب میں واقع اہم مراکز کو نشانہ بنا کر منظر عام پر لائیں گے۔ 

مزاحمتی فورسز کے پاس وسیع پیمانے پر میزائل اور ڈرون ہتھیار ہیں جنہیں اگلے مرحلے میں منظر عام پر لایا جائے گا۔ دشمن کے ہر دہشت گردانہ اقدام کے جواب مزاحمتی کارروائیاں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی ہیں۔ 

 یمنی اخبار المسیرہ نے مزاحمت کے بارے میں لکھا: اگر مزاحمتی محور نہ ہوتا تو برنارڈ لیوس کے نظریات کی بنیاد پر سعودی عرب، شام، مصر، عراق، یمن اور سوڈان تقسیم ہو چکے ہوتے۔ کویت کے مشہور تجزیہ نگار ڈاکٹر عبداللہ النفیسی کے مطابق اردن، لبنان، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین بالآخر دنیا کے نقشے سے مٹ جانا تھا اور ترکی کے کچھ حصے بھی شامل کے صیہونی حکومت کے مقبوضہ علاقے میں مزید اضافہ کرنا تھا اور مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے کا یہ واحد حصہ ہے جس پر عمل درآمد ہونا تھا، لیکن مزاحمت نے امریکی صیہونی منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔