امام کا طرز عمل لوگوں کو اس طرح متوجہ کرتا تھا کہ ہر وقت ان کی طرف دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی تھی اور اگر کوئی ان سے واقف نہ ہوتا تو وہ پہلی ہی ملاقاتوں میں اس روحانیت کو پوری طرح محسوس کرتا تھا۔

مہر خبررساں ایجنسی - گروہ دین تفکر: ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں 12 بہمن کو نہایت اہمیت حاصل ہے کہ اس دن رسول اکرم ص کے سلسلہ نسب سے آنحضرت کا انداز معاشرت لئے ایک شخص معجزانہ ولولے اور سمندر جتنی وسعتوں کے حامل دل لئے ایران کے پسے ہوئے مفلوک الحال عوام کے لئے رحمت کا جھونکا بن کر آیا اور 14 خرداد  (3جون) ایران کے عوام پر مصیبت اور  اور سوگ کی گھٹا بن کر آیا کہ امام امت داغ مفارقت دے گئے جس پر ہر آنکھ اشکبار ہوئی۔

اس پیر جماران نے طاقت پرستی کے بتوں کو توڑ ڈالا اور مشرکانہ عقائد کی بیخ کنی کی۔
 انہوں نے عوام کو سمجھا دیا کہ کامل انسان بننا، علی کی طرح زندگی گزارنا اور عصمت کی حد تک پہنچنا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انہوں نے قوموں کو یہ بھی سمجھا دیا کہ مضبوط بن کر غلامی کا طوق اتار پھیکنا ممکن ہے اور یہ عملا کر دکھایا۔

اگرچہ امام خمینی کی عظیم شخصیت کی بہت سی جہتیں ہنوز تشنہ تحقیق ہیں اور ان میں سے بعض کو دریافت کرنے میں مزید وقت لگے گا۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی 35ویں برسی کے موقع پر ہم اس غیر معمولی شخصیت کے چند شاگردوں کی حکایتیں سلسلہ وار پیش کریں گے۔

ذیل میں آیت اللہ امامی کاشانی کی زبانی ایک حکایت جو موئے دوست نامی کتاب سے نقل کی جارہی ہے:

آیت اللہ امام کاشانی بیان کرتے ہیں: میں انیس سال کی عمر میں کاشان سے حوزہ علمیہ قم آیا جہاں دوستوں کی زبانی میں نے سنا کہ امام خمینی درس خارج دے رہے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں شہید آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ منتظری اور قم کے کچھ دوسرے برجستہ طلاب تھے۔ یہاں تک کہ میں تئیس سال کی عمر میں ان کے درس خارج اصول میں شرکت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں پورے نصاب میں سات سال ان کی خدمت میں رہا اور میں نے "مکاسب" کا ایک حصہ اور کتاب زکوٰۃ و طہارت ان سے پڑھی۔


امام راحل کی روحانیت طلباء کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی

مجھے امام کے کردار کے بہت سے درخشاں پہلو یاد ہیں۔ ان میں ایک خاص قسم کی روحانیت اور جاذبیت پائی جاتی تھی، کہ جب وہ کسی جگہ تشریف لے جاتے تو اجنبی لوگ بھی ان کی روحانی کشش کی وجہ سے ان کی جانب متوجہ ہو جاتے تھے۔  

امام نے ایک دن اپنے عرفان کے استاد مرحوم آیت اللہ شاہ آبادی کے بارے میں فرمایا: مرحوم استاد شاہ آبادی ایک الہی نعمت تھے" امام نے ان سے علم عرفان (روحانی سیر و سلوک) حاصل کیا، امام راحل اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات اور جو دعائیں پڑھتے تھے اگرچہ وہ ہم نے پڑھ رکھی تھیں ہیں لیکن امام کے دعائیں پڑھنے سے جو قلبی ایقان حاصل ہوتا تھا اور دلوں کی جو کیفیت بنتی تھی وہ ایک ناقابل بیان حقیقت ہے۔

امام خمینی کے علمی مقام کے بارے میں شہید مطہری کا بیان

آیت اللہ کاشانی بیان کرتے ہیں: جب ہم قم میں تھے اور ابھی ان کے درس میں جانے کی توفیق نہیں حاصل نہیں ہوئی تھی،  شہید آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ منتظری نے امام کی دقت نظر اور عمیق فکر کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا۔ جب ہم خود ان کے درس میں شریک ہوئے تو ان کی پختہ نظری اور دقت علمی کا مشاہدہ کیا کہ امام اس اعتبار سے ایک نابغہ تھے۔ 

آیت اللہ بروجردی کے بعد امام کی اعلمیت

 ہم انہی ایام میں ہی اس بات کے معتقد ہوچکے تھے کہ موجود فقہاء میں امام راحل فقیہ ترین ہیں۔ یعنی مرحوم آیت اللہ بروجردی کے بعد امام خمینی اعلم ہیں۔ ہم نے دوسرے آیات عظام کے دروس میں بھی شرکت کی تھی، لیکن ان میں یہ خصوصیت نہیں تھی۔ جب میں بیالیس سال کی عمر میں نجف گیا تو میں نے نجف کے بزرگ آیت اللہ حکیم، آیت اللہ خوئی اور مرحوم آیت اللہ شاہرودی کے دروس میں شرکت کی اور میں نے مشہد میں مرحوم آیت اللہ میلانی کے درس میں بھی شرکت کی اور امام کے درس کے ساتھ موازنہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ امام خمینی کا درس پختہ ترین ہے، اس لیے میرا یقین تھا کہ مرحوم آیت اللہ بروجردی کے بعد امام خمینی اعلم ہیں، یہاں تک کہ امام کی نہضت اور قیام سے پہلے ہی آپ اعلمیت رکھتے تھے۔

بزرگ علماء کی آراء پر محترمانہ نقد یا رد

امام خمینی بزرگ علماء اور فقہاء کا نہایت احترام کرتے تھے اور ہمیں یہ سکھایا کہ بزرگوں کا احترام کیا جائے۔ یہاں میں ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں۔ قم کے ایک طالب علم کو مرحوم آیت اللہ بروجردی سے کوئی اعتراض تھا۔ درس ختم ہونے کے بعد جب ہم مسجد سلماسی میں گئے تو امام راحل اس طالب علم کو مسجد کے ایک کونے میں لے گئے اور نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا: " آقائے بروجردی کی اعلمیت اور تقوی کے بارے میں ہرگز شک نہ کریں"۔

  درس و تدریس کے دوران جب فقہ، اصول اور فلسفہ کے بزرگوں کی آراء کو رد کرنا چاہتے تھے تو نہایت احترام کے ساتھ رد یا نقد کیا کرتے تھے۔

شاگردوں کے سامنے دو زانو بیٹھنا

ان کی ایک اور خصوصیت شائستگی اور عاجزی تھی۔ ان سات سالوں میں جو کچھ ہمیں یاد ہے وہ یہ ہے کہ پورے درس میں وہ شاگردوں کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے تھے اور ایک خاص شائستگی رکھتے تھے۔  جب ہم محلے کی گلیوں میں ان کی خدمت میں پہنچتے اور ان سے ملتے تو ہم دیکھتے تھے کہ وہ جہاں ایک خاص وقار سے چلتے تھے وہیں وہ نہایت متواضع بھی دکھائی دیتے تھے۔ وقار اور متانت کے ساتھ تواضع کا حامل ہونا بہت مشکل امر ہے۔

درس کے بعد طلباء سوالات پوچھتے تھے

امام بحث علمی سے کبھی بھی نہیں اکتاتے تھے۔ جب درس ختم ہو جاتا تو وہ عموماً بیٹھ جاتے اور طلبہ جا کر ان سے سوال کرتے۔

امام تمام بزرگ علماء اور فقہاء کی آراء نقل کرتے اور ان کی تشریح کرتے اور ہر ایک کو صحیح دلائل کے ساتھ رد کرتے اور جو حصہ صحیح ہوتا اسے مکمل کرتے۔ یہ ان کی خاصیت تھی، کہ وہ مسئلے کو اچھی طرح پرکھتے تھے، تمام جوانب اور ابعاد پر غور کرتے تھے اور اشکالات کو نقل کرنے کے بعد ان کو رد کرتے اور اپنی رائے کو ٹھوس دلائل کے ساتھ ذہنوں میں اتارتے تھے۔ درس و تدریس کے میدان میں یہ خصوصیت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم انہی ایام میں یہ یقین حاصل کرچکے تھے کہ امام خمینی اپنے زمانے کے فقیہ ترین مرجع ہیں۔