مہر خبررساں ایجنسی-کاروان نامہ نگار-ممتاز ناروی، آج نجف اشرف میں میرا پہلا دن ہے۔ مولائے کائنات کے روضہ مبارک سے نکل کر صحن میں پہنچا تو یاد آیا کہ ایک بادشاہ تھا کہیں۔ بادشاہ کو علم عروض پہ مکمل دسترس حاصل تھا اور شاعری بھی خوب کرتا تھا۔ بادشاہ مولاے کائنات کے عشق سے سرشار بھی تھا۔ کئی ہفتوں سے وہ سخت ذہنی اذیت کا شکار تھا اور راتوں کو سو نہیں پاتا تھا۔
در حقیقت اس نے ایک شاندار مصرع تخلیق کیا تھا مگر دوسرا مصرع اس سے بن نہیں پارہا تھا۔ اس نے ملک کے تمام شعرا کو بھی دعوت دی تھی کہ مناسب گرہ لگا دیں مگر کسی سے ہو نہیں رہا تھا۔ اس نے منہ مانگا انعام کا اعلان بھی کیا تھا مگر بات نہیں بن رہی تھی۔ مصرع تھا۔ "بہ ذرہ گر نظر لطف بو تراب کند" اگر ایک بے حیثیت معمولی سی ذرے پر بھی بوتراب کی نظر کرم پڑے تو؟؟ شعرا نے بہت طبع آزمائی کی مگر بادشاہ کو پسند نہ آ یا۔
اسی ملک میں جسمانی و مالی طور پر انتہائی کمزور ایک طالب علم بھی رہتا تھا جس کو غربت کی وجہ سے دوسرے طالب علم حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس دن تو حد ہو گئی کئی طالب علموں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوے کہا کہ تم ہر شب جمعہ مولا علیؑ کے مزار پہ جاتے ہو؛ ان سے صحت و تندرستی اور دولت کیوں نہیں مانگتے؟
وہ طالب علم مولاؑ کی درگاہ پر آ کے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ رات کو خواب میں مولا اسے ایک مصرع دے کر حکم دیتا ہے اسے لکھ کر فلان بادشاہ کے پاس جاؤ، آنکھ کھلنے پر اسے وہ مصرع اچھی طرح یاد ہوتا ہے۔ وہ بادشاہ کی خدمت میں پہنچ کر مصرع سناتا ہے جسے سن کر بادشاہ پھڑک اٹھتا ہے اور پوچھتا ہے سچ بتا کس شاعر نے سکھا کے بھیجا ہے۔
اس طالب علم نے پورا واقعہ سنایا جسے سن کر بادشاہ نےاس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اس کی اکلوتی بیٹی کی شادی اسی سے کرے اور ولیعہد بنا لے۔
وہ مصرع ہے : "بہ آ سمان رود و کار آفتاب کند" آسمان تک وہ ذرہ جا کے خورشید کا کام کرے گا۔