مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ منافقین کا فرسودہ دہشت گرد گروہ جو عراق سے لے کر البانیہ تک جس ملک پر بھی مسلط کیا گیا یہ اس میزبان ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوا ہے۔ البانیہ اور فرانس میں منافقین کے خلاف حالیہ واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ گزشتہ منگل کو البانوی پولیس نے تیرانہ اور منافقین کے درمیان میں 2013 میں کئے گئے معاہدے کی عدم تعمیل کی وجہ سے ساحلی شہر ڈیورس میں اس دہشت گرد گروہ کے اڈے اشرف 3 کیمپ پر آپریشن کیا۔
اس کریک ڈاون آپریشن میں علی مستشاری (عبد الوہاب فرجی نژاد) جو کہ مرصاد نامی دہشتگردانہ کاروائی میں اس گروہ کا کمانڈر اور ٹیکنیکل امور کا ذمہ دار تھا، مارا گیا۔ فرجی نژاد جو کہ 1360 میں تہران کے تین شہید محافظوں کے قتل کے مجرموں میں سے ایک تھے کی موت کے علاوہ دیگر کئی دہشت گردوں کی حالت تشویشناک قرار دی گئی ہے، جن کی تعداد 20 سے زیادہ ہے، اس دہشت گرد گروہ کے کئی دوسرے کمانڈر بھی ہیں، جنہیں خفیہ رکھنے کے لیے تنظیم نے جدوجہد کی ہے۔
یاد رہے کہ "البانوی ڈیلی نیوز" نے اس گروہ کے ارکان کے حوالے سے بتایا ہے کہ پولیس نے اس گروہ کے 70 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
البانیہ، گروہ منافقین کی نافرمانی اور قانون شکنی کے باعث، میزبانی کے بارے میں پریشان
البانیہ کی خبر رساں ایجنسیوں نے اس حملے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ البانیہ کے تنظیمی جرائم اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنے والے ادارے کے پاس اس گروہ کی سرگرمیوں کے خلاف ایک مقدمہ زیر تفتیش تھا اور اس دوران وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ منافق قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ 2013 میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس تنظیم کو البانیہ میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیاں نہیں کرنی تھیں اور انہیں اس ملک کے قوانین کی پابندی کرنی تھی۔ چنانچہ البانوی حکام نے تقریباً ایک دہائی قبل ان شرائط پر اس گروپ کو پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔
مغرب منافقوں کی حمایت سے کیوں مکر گیا؟
منافقین کے بارے میں میزبان ملک البانیہ سے لے کر فرانس اور امریکہ تک مغربی ممالک کے اعلانات ور عملی موقف پر نظر ڈالی جائے تو اس دہشت گرد گروہ کے بارے میں یورپ اور امریکہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
فرانسیسی پولیس کی جانب سے تنظیم کے سالانہ اجتماع پر پابندی کے فوراً بعد تنظیم کے ہیڈ کوارٹر پر البانوی پولیس کا حملہ، اس گروہ کے "منافقوں کو مسترد کرنے" اور " ناکارآمد قرار دینے" کے منظر نامے کو تقویت دیتا ہے۔ فرانسیسی پولیس نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ منافقین کے دہشت گرد گروہ کو پیرس میں اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیے گی۔ یہ ایک ایسا اعلان ہے جس پر منافقین نے عکس العمل دکھاتے ہوئے ایلیسی پیلس پر الزام لگایا کہ اس نے ایران کے دباؤ میں آکر یکم جولائی کو ہونے والے مظاہرے کو روک دیا ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے امریکہ کی طرف سے انتہائی دلچسپ موقف دیکھا جو البانیہ کی حمایت میں اور فرانس کے طرز عمل کے مطابق تھا۔ امریکا کا یہ موقف منافقین کی توقع کے برخلاف ہے جنہیں ہم نے امریکی حکام بالخصوص "جان بولٹن" کے لئے محو رقص دیکھا تھا ۔ لگتا ہے کہ بازی کا صفحہ پلٹ گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں البانیہ کے اس حق کی حمایت کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں کسی بھی غیر قانونی کارروائی کے امکان کی تحقیقات کر سکتا ہے، اور اس بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امریکی حکومت منافقین کی تنظیم کو ایرانی عوام کی نمائندہ ہ نہیں سمجھتی اور نہ ہی کوئی مالی یا تربیتی کمک فراہم کرے گی اور اسے اس تنظیم کے اپنے اراکین کے ساتھ تنظیمی بدسلوکی کے الزامات" کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔
یہ ایک ایسا موقف ہے جس کی مثال نہیں ملتی اور اس سے امریکہ کی اس گروہ سے جان چھڑانے کے ارادے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جب کہ منافقین نے امریکی وزارت خارجہ کے بیان کو "شرمناک" قرار دیا۔ منافقین کا اپنے خلاف امریکہ کے اس غیر متوقع اقدام سے حیران اور بیزار ہونا فطری ہے۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے اس سے قبل معزول بادشاہ کے بیٹے کے خلاف عسکری مہمات اور 1970 کی دہائی میں ایران میں امریکی شہریوں کے قتل اور پھر 1992 میں امریکی سرزمین پر حملے کی تیاری کی وجہ سے منافقین کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج کیا تھا لیکن 2012 میں اس تنظیم کو عراق میں تشدد کے خاتمے اور امریکہ کے ساتھ کھلے تعاون کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب منافقین کا نام امریکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالے جانے کے بعد 2014 سے اب تک امریکہ کی درخواست پر اس گروپ کے تقریباً 2700 ارکان کو البانیہ منتقل کیا گیا تھا۔
مغرب کی عقل ٹھکانے پر آنے کا سبب ایران کی طاقت اور متحرک سفارت کاری ہے۔
مبصرین کے مطابق مغرب کے منطق اور عقلیت کے مدار میں آنے کی ایک وجہ ماضی کی حمایت کے نتائج اور اس کے تسلسل کے نقصان دہ ہونے کے بارے میں ان کی نئی تفہیم سے متعلق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی مجلہ "Politico" نے تیرانہ کے انٹرنیٹ سسٹمز پر ایران کے سائبر حملوں کے بارے میں البانیہ کے خوف اور تشویش کو منافقین کے بارے میں نقطہ نظر کی تبدیلی کی بنیاد قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ البانیہ میں ایران کی انٹیلی جنس سرگرمیوں میں اضافے سے لے کر حکومت کے انٹرنیٹ سسٹمز کے خلاف سائبر حملوں کے بارے میں پراسیکیوٹر کے دفتر کی تحقیقات کے مطابق تنظیم منافقین کے ممبران کی مشکوک سرگرمی البانیہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
اس امریکی مجلے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں ایران نے البانیہ کے بنیادی ڈھانچے پر بڑے پیمانے پر سائبر حملے کیے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات منقطع ہو گئے۔ اس لیے تیرانہ کے حکام منافقین کی حمایت کو مہنگا سمجھتے ہیں اور ان کو رد کر چکے ہیں۔
بعض مبصرین، منافقین کی تنہائی اور مغرب کے نقطہ نظر میں تبدیلی کو ایران کی متحرک اور فعال سفارت کاری کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ وہی سفارت کاری جس کی وجہ سے چند ہفتے قبل بیلجیئم میں قید ایرانی سفارت کار اسد اللہ اسدی کی رہائی ہوئی۔ اسے پیرس میں منافقین کے اجتماع کے خلاف بم دھماکے کی کارروائی میں ملوث ہونے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل میکرون کے ساتھ 90 منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو بھی ایک ایسا موضوع تھا جو کہ ماہرین کے مطابق ایلیسی کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے میں موئثر رہا۔ اس گفتگو کے بعد منافقین کے گروپ کی طرف سے سالانہ کانفرنس کے قیام کی پیرس کی مخالفت نے اس میدان میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے امکان کو تقویت دی۔
ایسا لگتا ہے کہ تہران ریاض معاہدے اور ان کے تعلقات کی بحالی، عمان میں امریکی حکومت کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ساتھ علاقائی مساوات میں تہران کی ناقابل تردید اور موئثر طاقت کو دیکھ کر مغرب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ عقلیت کے راستے پر واپس آئے اور البانیہ بیٹھے منافقین کے اس بوڑھے اور ناکارہ گروہ کی مہنگی حمایت ترک کرے۔
البتہ مغرب کی منافقین سے ایک کمزور اپوزیشن کے طور پر مایوسی بھی ان کے موقف میں تبدیلی کا باعث بنی ہے۔ لہٰذا حالیہ ناہمواری میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فتح نے واضح کیا کہ منافقین کی طرف سے سائبر حملوں اور تخریبی کاروائیوں کا جو سلسلہ وہ اب تھم چکا ہے اور مناقفین کی حیثیت اب مغرب کے لیے ایک ناکارہ پرزے کی سی رہ گئی ہے۔