جنرل عبدالفتاح البرھان اور پیراملٹری فورسز کے جنرل حمیدتی کے درمیان اقتدار کی جنگ تاحال جاری ہے۔ مستقبل قریب میں بحران کا کوئی پائدار حل نظر نہیں آرہا ہے۔

مہر خبررساں، بین الاقوامی ڈیسک؛افریقی ملک سوڈان گذشتہ چھے دہائیوں سے مسلسل جنگ کی حالت میں ہے۔ مسلسل تنازعات کی وجہ سے ملک ایک مرتبہ تقسیم کا شکار ہوچکا ہے۔ 15 اپریل سے جاری دونوں فوجی رہنماوں جنرل البرھان اور جنرل حمیدتی کے درمیان جنگ کے بعد سوڈانی کی مشکلات شروع ہوگئی ہیں۔ مغربی علاقے دارفور سمیت پورے سوڈان میں غذائی اجناس کی قلت کا سامنا ہے۔۔ ملکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ اور معیشت کی تباہی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

حکومت باہمی جنگ پر بڑی مقدار میں دولت خرچ کررہی ہے جس کی وجہ اقتصادی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی امور پر نگرانی کرنے والے اداروں نے انتباہ جاری کیا ہے کہ باہمی لڑائی پر زیادہ اخراجات کی وجہ سے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں پورا سوڈان بحران میں مبتلا ہوگیا ہے۔ 30 لاکھ سے زائد مزدور دو وقت کے کھانے کو ترس رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں کارکنوں کو تجارتی اور دیگر اداروں سے نکال دیا گیا ہے۔ بازاروں میں خرید و فروخت کم ہونے کی وجہ سے تجارت کا پٹہ بیٹھ گیا ہے اور ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔

خرطوم سے شروع ہونے والے بحران نے سوڈان کے دوسرے صوبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا ہے۔ الجزیرہ، البیل الابیض، نہر النیل اور کردوان جیسے صوبے غذائی اجناس کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ 15 اپریل سے خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ملک میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ حملوں میں ملکی انفراسٹرکچر اور تجارتی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جنگ کی وجہ سے خرطوم سے ہجرت کرنے والے غربت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ 

شہروں میں بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کی سہولت ختم ہوگئی ہے۔ گھروں میں چولہے بجنے کی وجہ سے تندوروں پر لمبی صفیں نظر آتی ہیں اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ لکڑی کا ایندھن جلانے پر مجبور ہیں۔ فریقین کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچانے کا عمل بھی تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔ اگر طبی امداد پہنچانے میں مزید تاخیر ہوئی تو مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلنے سے سوڈان میں انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ سوڈانی ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق خانہ جنگی کی وجہ سے جنگ سے متاثرہ علاقوں میں 67 فیصد ہسپتال بند ہوگئے ہیں۔ خرطوم کے 89 فیصد ہسپتال کسی قسم کی خدمت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسرے صوبوں کی حالت بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہسپتالوں کو درپیش مشکلات میں افرادی قوت کی کمی، طبی اشیاء کی قلت اور پانی اور توانائی کے وسائل کا منقطع ہونا شامل ہے۔ ملک کی خانہ جنگی کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد ہجرت پر مجبور ہیں۔ 

جدہ میں دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی کے لئے مذاکرات ہوئے لیکن ابتدا میں ہی کہا جارہا تھا کہ جدہ مذاکرات کے حوصلہ افزا نتائج نہیں نکلیں گے۔ سعودی عرب نے بھی حال ہی میں بیان دیا ہے کہ ان مذاکرات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ جنگ بندی کے دوران فریقین نے متعدد مرتبہ خلاف ورزی کی اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق خرطوم کے جنوب میں جنگی طیاروں اور توپ خانے بھی استعمال کئے گئے۔ 

ملک میں جاری حالات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سوڈان کو تاریک اور وحشت ناک مستقبل درپیش ہے۔ 2019 میں عمر البشیر کی معزولی کے بعد سوڈان مسلسل بحران کی زد میں ہے۔ فوجی اور سویلین افراد پر مشتمل حکومت سوڈان کو چلانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ حکومت ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے پرامن طریقے سے اقتدار منتقل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ سوڈان کے بحران کی ایک مرکزی وجہ بیرونی مداخلت بھی ہے۔ ملک کی سیاست بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ ستر سالوں سے جاری تنازعات اب بھی سوڈان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔

موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں جاری بحران اور خانہ جنگی کا فی الحال خاتمہ نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب مل کر بھی بحران کو حل نہیں کرسکے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ دونوں فریقین کو مختلف اطراف سے مدد مل رہی ہے۔ اگر بیرونی عوامل کی پس پردہ حمایت نہ ہو اور بڑی مقدار اسلحہ اور دیگر امدادی سامان فراہم نہ کیا جائے تو اب تک جنگ رک چکی ہوتی۔ 

مسلح افواج اور پیراملٹری فورسز دونوں اپنے مدمقابل کو اسلحے کے زور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی طاقت کے اس گھمنڈ کی وجہ سے دونوں اسلحہ پھینکنے پر تیار نہیں ہیں۔ طاقت اور اقتدار کے اس نشے میں عوام پس رہے ہیں۔ اگر کرایے کے مزدور سوڈان میں داخل ہوجائیں تو حالات مزید خطرناک رخ اختیار کریں گے۔ پیسوں کے لئے کام کرنے والے جنگجو سوڈان میں امن کی بحالی کی کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ لیبیا کو اس حوالے سے بہترین مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں جہاں کرائے کے جنگجووں کی وجہ سے اب تک قیام امن ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ سوڈان میں اس وقت عقل اور فکر کے بجائے گولی برسانے کی آوازیں اور جنگی طیاروں کے گرجنے کی صدائیں راج کررہی ہیں۔ جنگی ماحول میں مذاکرات اور صلح کی کوششوں پر مسلح تصادم کے گہرے بادل سایہ فگن ہیں۔ مزید پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب سیاسی جماعتوں کے بجائے جنگ میں شامل فریقین سوڈان کی سرنوشت رقم کریں۔ علاقائی اور بین الاقوامی کرداروں کے ساتھ جنگ کے فریقین کا گٹھ جوڑ سوڈان کے قومی مفادات کے لئے کسی بھی لحاظ سے مفید ثابت نہیں ہوگی۔

امریکہ نے دونوں جنگی فریقوں پر پابندیاں عائد کی ہیں لیکن ان کے اثرات زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے ہیں۔ سوڈانی مسلح افواج کافی عرصے سے امریکی پابندیوں کی زد میں رہنے کی وجہ سے ان سے نمٹنے کا گر جانتی ہیں۔ جبکہ پیراملٹری فورسز بھی پابندیوں سے آزاد ہونے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرسکتی ہیں۔ 
بعض مبصرین کے مطابق پیراملٹری فورسز کے برعکس سوڈانی مسلح افواج ان پابندیوں کی وجہ سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوجائیں گی۔ جنگ کو روکنے کا واحد ذریعہ پابندی عائد کرنا نہیں بلکہ سوڈان کو سپلائی ہونے والے اسلحے کی سپلائی لائن کو کاٹنا پڑے گا۔ جب دولت کے بل بوتے پر پڑوسی ممالک سے اسلحہ کی سپلائی کو روکا نہ جائے جنگ بھی جاری رہے گی۔

اب تک کی جنگ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مسلح افواج کے پاس جنگی طیارے جبکہ پیراملٹری فورسز کے پاس جنگجو موجود ہیں لیکن بھاری اسلحہ نہیں ہے۔ 

جب تک دونوں فریق کو ہونے والی امداد روکی نہ جائے جنگ کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ جس دولت کو سوڈانی عوام کی فلاح و بہبود پر خرج کرنا چاہئے وہ خانہ جنگی کی نذر ہورہی ہے۔ سونے کے عظیم ذخائر اور دولت و ثروت کا بحر بیکران ہونے کے باوجود سوڈانی عوام غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دولت جنگوں پر خرچ ہورہی ہے۔