تہران-ریاض تعلقات کے بعد قاہرہ اور تہران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا موضوع میڈیا پر زینت بنا ہوا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد ان تعلقات کو دوسرے ممالک، جیسے مصر کے ساتھ بھی مضبوط بنانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ لیکن یہ خبریں صرف ممکنہ خبریں ہی کہلا سکیں گے کیونکہ مصری حکام نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔

مصر عرب ممالک کا ایک اہم رکن ہے اور بہت سے معاملات میں سعودی عرب کا حامی ملک ہے نیز تہران اور ریاض کے تعلقات کی بہتری کو ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا قدم قرار دیا ہے لیکن ان حقائق کے باوجود قاہرہ کے حکام کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات پر مبنی خبروں کی تردید کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

مصر کا ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہ لانے کے اسباب:

قاہرہ کا ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر نہ لانے والے اسباب میں سے پہلا سبب، جنرل السیسی کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قریبی روابط ہیں۔

مصری حکام کے مطابق، مصر اور امریکہ کے مابین اسٹراٹیجک تعلقات ہیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے السیسی کی حکومت کو اقتصادی اور غذائی بحرانوں میں خاص طور پر یوکرائنی بحران کے بعد مدد کرنے کا وعدہ دیا ہے۔

مصر اور امریکہ کے مابین نظامی روابط بھی اس قدر وسیع ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان صرف اسلحے کی خریداری کا تخمینہ اڑھائی سو بلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں خاص طور پر مصر کو سد النھضہ بحران کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اتحاد اور نظامی مدد درکار ہے، لہٰذا ایسے اقدامات مثلاً ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا جو کہ امریکہ کے مفادات مخالف عمل ہیں، مصر کیلئے شاید اتنا آسان نہ ہو۔

رواں ماہ، کچھ ذرائع نے نام فاش نہ کرنے کی شرط پر، امریکی نمائندگان کے مصر دورے کی رپورٹ دی تھی اور اس دورے کا مقصد، مصر کو ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے روکنا تھا۔
غاصب اسرائیل مصر کو ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے روکنے والا دوسرا سبب شمار ہوتا ہے، فلسطین کے حوالے سے مصر کا مؤقف ہمیشہ ثالثی رہا ہے اور غاصب اسرائیلی حکام بھی فلسطینی گروہوں سے مصر کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ اسرائیلیوں کی نظر میں مصری حکام مذکرات میں زیادہ نرمی دکھاتے ہیں۔

ایران مصر تعلقات سے ممکن ہے، اسرائیل کے خلاف قاہرہ کے مؤقف میں شدت آجائے، لہٰذا غاصب حکومت پوری طاقت سے ایسے اقدامات میں روکاوٹ بنے گی۔ اسی طرح غاصب صہیونی حکومت نے امریکی ایوان نمائندگان میں بہت سے مواقع خاص طور پر مصر کی نظامی مدد کے حوالے سے ساتھ دیا ہے اور ان منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے لچک دکھائی ہے۔ مصر کی حفاظت غاصب اسرائیل کیلئے اس قدر اہم ہے کہ صہیونی پارلمان میں قائد حزب اختلاف یائیر لاپید نے ایک ٹوئیٹ پیغام میں لکھا ہے کہ مصر اور ایران کا ایک دوسرے سے نزدیک ہونا اسرائیل اور علاقائی مفادات کیلئے ایک متضاد عمل ہے۔

مصر اور ایران کے ہم آہنگی کے عوامل:

ریاستہائے متحدہ امریکہ اور غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ روابط کی اہمیت کے باوجود، مصری حکام نے بعض دفعہ کسی حد تک خارجہ پالیسی میں مؤقف اختیار کیا ہے۔ افغانستان سے امریکیوں کا اچانک انخلاء، خطے کے بہت سے ممالک کیلئے ایک بہت بڑا سبق ہو سکتا ہے۔مصر نے نیز ان حالات سے سیکھا ہے کہ واشنگٹن کے اتحاد پر ہمیشہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا اپنے ناگزیر مفادات کے تحفظ کیلئے خطے کے ممالک سے روابط بڑھانے کا خواہاں ہے۔

دوسری جانب سد النھضہ کا مسئلہ قاہرہ اور تل ابیب کے روابط میں شگاف پڑنے کا سبب بنا ہے، اسرائیل نے سد النھضہ مسئلے پر مصری فریق کی سلامتی، نظامی اور مالی معاونت کی ہے۔ لہٰذا مصر کو نئے اتحادیوں کی پہلے سے کئی گنا زیادہ ضرورت ہے جو سد النھضہ بحران میں مصر کی حمایت کریں۔

خطے کے بعض مسائل پر قاہرہ اور تہران کا مؤقف دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے نزدیک کرنے کا سبب بنا ہے، مثلاً شام کے بحران میں مصر نے بھی سوریہ کی مکمل خودمختاری اور بشار الاسد کی حکومت کے برقرار رکھنے والے ایرانی مؤقف پر تاکید کی ہے۔ نیز یمن کے بحران میں مصر نے اس ملک پر حملے کی حمایت نہیں کی کیونکہ دریائے سرخ اور باب المندب میں استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے میں یمن کی جنگ مصر کے حق میں نہیں تھی، اسی طرح تہران نے بھی صلح و آشتی اور امن و امان قائم کرنے کیلئے یمن کے بحران کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔

لیکن تہران قاہرہ تعلقات کی اصل وجہ، ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے، مصری حکام نے شروع میں ہی اعلان کیا تھا کہ ایران کے ساتھ تعلقات، تہران اور ریاض کے تعلقات پر ڈائرکٹ اثر انداز ہوں گے۔ مصر خود کو عرب دنیا کا ایک اہم ستون سمجھتا ہے اور خارجہ پالیسی میں دیگر عرب ممالک کی طرح مؤقف اپناتا ہے۔

گفتگو کا خلاصہ:

سودی اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد، قاہرہ- تہران تعلقات بھی میڈیا پر ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود مختلف عوامل جیسے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ مصر کے روابط، ان تعلقات کی تیزی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان معاملات میں غیر ملکی طاقتوں بشمول امریکہ کے اثر و رسوخ کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیئے اور خطے کے ممالک کو اپنے مفادات کیلئے نئے آئیڈل اپناتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیئے۔

ایران - مصر تعلقات کو معمول پر لانے میں بغداد کے کردار کا انکار نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ عراق 2018ء میں دہشت گردی سے نمٹنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا اور اس کے بعد سے اپنی خارجہ پالیسی کے دائرے کو وسیع کرنے میں مصروف عمل ہے اور خطے کے بعض ممالک سے روابط بڑھانے میں کامیاب بھی رہا ہے اور دیگر ممالک کے درمیان روابط کو برقرار کرنے میں ایک پل کے طور پر کام کر رہا ہے اور ایرانی اور سعودی مذاکراتی ٹیم کے درمیان روابط بڑھانے کیلئے بھی ایک اہم اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لیبلز