ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں فسادات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اور مختلف شہروں میں جلاؤ گھیراؤ اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

 مہر خبررساں ایجنسی نے بھارتی میڈیا سے نقل کیا ہے کہ منی قبائلیوں اور غیر قبائلی باشندوں کے درمیان نسلی فسادات کے دوران اب تک متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد کو ریاستی دارالحکومت امپھال اور دیگر شہروں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔قبائلی باشندوں اور میتےئی برادری کے لوگ، ایک دوسرے کے گھروں، دوکانوں اور املاک پر حملے کرکے انہیں لوٹ رہے ہیں۔ریاست منی پور کے حالات بے قابو ہوتے دیکھ فسادات پر قابو پانے کے لئے فوج اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد میں طلب کرلی گئی ہے جبکہ آسام رائفل نیم فوجی دستوں کو بھی منی پور کے شہروں کے چپے چپے پر تعینات کردیا گیا ہے۔

کئی ہزارلوگوں نے پڑوسی ریاست آسام میں پناہ لے لی ہے اور منی پور جانے والی سبھی ٹرینوں کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ ریاست منی پور میں فسادات اس وقت شروع ہوئے جب منی پور ٹرائیبل اسٹوڈینس یونین نے میتےئی قبائل کو تعلیم اور نوکریوں میں کوٹہ اور انہیں ایس ٹی کا درجہ دینے کے ریاستی ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ریاست گیر مظاہرے کئے۔یہ مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کرگئے جن میں کئی گرجا گھروں کو بھی آگ لگادی گئی۔ریاستی گورنرنے بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دے دیا ہے۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے جمعہ کی صبح ٹوئٹر پر کہا کہ منی پور میں حال کے واقعات سے متاثر کئی کنبوں نے آسام میں پناہ مانگی ہے۔ میں نے کچھار کی ضلع انتظامیہ سے ان کنبوں کی دیکھ بھال کی گزارش کی ہے۔ سرما نے کہا کہ وہ منی پور میں اپنے ہم منصب این بیرین سنگھ کے ساتھ لگاتار رابطے میں ہیں اور ہم نے بحران کے اس وقت میں آسام حکومت کو پوری حمایت دینے کا وعدہ کیا ہے۔