مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی عدلیہ کے ڈپٹی بین الاقوامی امور اور محکمہ انسانی حقوق کے سیکریٹری کاظم غریب آبادی نے گزشتہ رات شہید سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر خصوصی ٹی وی پروگرام میں بات کی اور شہید سلیمانی کے قتل کیس میں ایرانی عدلیہ کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات اور تازہ ترین صورتحال پر روشنی ڈالی۔
کاظم غریب آبادی نے کہا کہ اس جرم کے حوالے سے عراقی اور ایرانی عدالتوں میں دو مقدمات کھلے ہوئے ہیں جبکہ ایرانی عدالتی نظام میں اس مقدمے کی تفتیش تہران کی بین الاقوامی امور کی عدالت میں جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عدالتی اداروں کے درمیان گزشتہ سال ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ کمیٹی کے اجلاسوں کے تین دور بغداد اور تہران میں ہوچکے ہیں۔ اگلے ہفتے چوتھا دور شروع کرنے پر اتفاق بھی ہوچکا ہے۔ مشترکہ کمیٹی میں دونوں عدالتی اداروں کے درمیان معلومات اور دستاویزات کا بہت اچھا تبادلہ ہوا اور ان دستاویزات اور معلومات نے ہمارے عدالتی حکام کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے میں مدد دی۔
ایرانی محکمہ انسانی حقوق کے سکریٹری نے مزید کہا کہ ہمارے اندازوں کے مطابق ایران اور عراق کے درمیان مذاکرات کے چوتھے دور کے بعد اس فرد جرم کو حتمی شکل دے دی جائے گی جو ہمارے عدالتی حکام تیار کر رہے ہیں۔ فرد جرم کا مرکزی مواد لکھا جا چکا ہے اور عدالتی حکام اس کا جائزہ لے کر حتمی شکل دے رہے ہیں اور آئندہ ہفتے اس فرد جرم میں عراقی عدالتی ٹیم کی طرف سے پیش کردہ مواد پر غور کیا جانا ہے۔
غریب آبادی نے اس مقدمے میں ملزمان اور مدعا علیہان کے بارے میں مزید کہا کہ فی الحال فرد جرم امریکی مدعا علیہان پر مرکوز ہے۔ اس مقدمے میں اس وقت امریکہ سے 94 مدعا علیہ ہیں۔ عدالتی حکام کی طرف سے تمام ضروری دستاویزات جمع کر لی گئی ہیں اور ان 94 مدعا علیہان کے بارے میں کم از کم تین مکمل جلدیں تیار ہیں۔ 3 مرکزی ملزمان ٹرمپ، پومپیو اور میکنزی ہیں۔ عدالتی کارروائی سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ جاری کردہ فرد جرم نے مکمل اور واضح طور پر من جملہ ان 3 افراد چارجز لگائے ہیں اور عدالتی نظام اس کی پیروی کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 7 دیگر ممالک کو جوڈیشل پراکسیز بھی بھیجی گئ ہیں کیونکہ اس کیس کے ملزمان صرف امریکی نہیں ہیں بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی ان کے ساتھی تھے مثال کے طور پر خطے کے کچھ ممالک اور دو یورپی ممالک جرمنی اور انگلینڈ سے۔ بدقسمتی سے ان ممالک نے ابھی تک سفارتی چینل سے بھیجی گئی عدالتی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ وزارت خارجہ کے ذریعے ہم نے ان ممالک پر دباؤ بڑھایا کہ ان کا جواب دیا جائے۔ یہ کیس دوسرے مدعا علیہان کے متعلق بھی آگے بڑھایا جاسکتا۔ یہ کیس کا اگلا مرحلہ ہوگا۔
ایرانی عدلیہ کے ڈپٹی بین الاقوامی امور نے کہا کہ عراقی عدلیہ نے ہمارے ساتھ بہت اچھا تعاون کیا۔ حال ہی میں عراقی شہداء کے اہل خانہ نے عراق میں 5 دیگر افراد پر الزامات لگائے ہیں۔ عراقی جوڈیشری سے ہماری درخواست یہ ہے کہ اس عمل میں تیزی لا کر مقدمے کی پیروی شروع کرے اور فرد جرم جاری کرے۔ ہم نے اس کیس میں ملوث 17 عراقی افراد کے کردار سے متعلق دستاویزات بھی عراقی عدلیہ کو فراہم کی ہیں۔ چوتھے دور میں مزید دستاویزات اور معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا اور ہم نے عراقی عدالتی حکام سے کہا کہ وہ ان 17 افراد کے کردار پر توجہ دیں۔
غریب آبادی نے کیس کی بین الاقوامی پیروی کے بارے میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے 1973 کے کنونشن کے دائرہ کار میں اپنا پہلا اقدام کرنے کا فیصلہ کیا اور سفارتی چینل کے ذریعے کنونشن کی دفعات کی بنیاد پر امریکی حکومت کو ایک سرکاری خط بھیجا، جس میں اس نے امریکی حکام سے کہا کہ وہ یا تو ملزمان کو ایران کے حوالے کرے یا خود ان پر مقدمہ چلائے۔ اس سفارتی نوٹ میں ہم نے جو ڈیڈ لائن مقرر کی تھی وہ بھی ختم ہو چکی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران 1973 کے کنونشن کی بنیاد پر اگلے اقدامات کر سکتا ہے۔ اب دونوں ممالک میں اختلاف مکمل طور پر ثابت ہو چکا ہے اور امریکی حکام انصاف کے نفاذ سے گریز کر رہے ہیں۔