مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام جب خراسان کے سفرکے دوران 25 ذیقعدہ کو مرو پہنچے تو آپ نے فرمایا: آج کے دن روزہ رکھو میں نے بھی روزہ رکھا ہے راوی کہتا ہے ہم نے پوچھا اے فرزند رسول آج کون سا دن ہے؟ فرمایا: آج وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوئی اور زمین کا فرش بچھایا گیا۔
پچیس ذیقعدہ دحوالارض اور اس دن کے اعمال
دحوالارض کے لغوی معنی
"دحو" پھیلانے اور وسعت دینے کے معنی میں ہے ۔
مجمع البحرین میں آیا ہے: خدا وند عالم نے فرمایا:والارض بعد ذلک دحاھا (۳۰م۷۹)
دحاھا: ای بسطھا۔ دحوت الشیء دحوا ای بسطتہ۔ حدیث میں ہے" یوم دحو الارض" ای بسطھا من تحت الکعبہ و ھو الیوم الخامس و العشرون من ذی القعدۃ و فيه:
" خرج علينا أبو الحسن يعني الرضا (علیه السّلام) بمرو في يوم خمسة و عشرين من ذي القعدة، فقال: صوموا، فإني أصبحت صائما، قلنا: جعلنا الله فداك أي يوم هو؟ قال: يوم نشرت فيه الرحمة و دحيت فيه الأرض" « التهذيب ج 1 ص 306»
وحو الارض یعنی زمین کا فرش بچھانا۔ دحوالارض کے دن زمین کا فرش کعبہ کے نیچے سے بچھانا شروع کیا۔ اور اس دن پچیس ذی القعدہ تھی۔
امام رضا علیہ السلام نے جب خراسان کا سفر کیا اس سفر کے دوران پچیس ذیقعدہ کو آپ مرو میں پہنچے اور آپ نے فرمایا: آج کے دن روزہ رکھو میں نے بھی روزہ رکھا ہے راوی کہتا ہے ہم نے پوچھا اے فرزند رسول آج کون سا دن ہے؟ فرمایا: وہ دن جس میں اللہ کی رحمت نازل ہوئی اور زمین کا فرش بچھایا گیا۔
دحو الارض کے معنی زمین کو پھیلانے کے ہیں چونکہ لغت میں دحو کے معنی پھیلانے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی پھینکنے کے کئے ہیں اور چونکہ یہ دونوں معنی لازم اور ملزوم ہیں۔ لہذا ایک ہی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اس بنا پر دحو الارض کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں سطح زمین طوفانی بارشوں سے بھری ہوئی تھی اس کے بعد یہ پانی دھیرے دھیرے زمین کے سوراخوں میں چلا گیا اور زمین کی خشکی سامنے آ گئی یہاں تک کہ موجودہ حالت میں آگئی ( تفسیر نمونہ ج ۲۶، ص۱۰۰) سورہ نازعات کی ۳۰ ویں آیت میں والارض بعد ذلک دحاھا زمین کے پھیلانے کی طرف اشارہ ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ زمین کو سب سے پہلے کعبہ کے نیچے سے پھیلانا شروع کیا ۔
کتاب الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن کی ج ۳۰ ص۹۰ میں ایک روایت امام علی علیہ السلام سے ذکر ہوئی ہے: عن إمام المتقين علي عليه السّلام: «إن شاميا سأله عن مكة المكرمة لم سميت مكة؟ قال: لأن الله مك الأرض من تحتها، أي دحاها». و المك هو الدحرجة كما في القاموس.ایک شامی مرد نے امام علی (ع) سے سوال کیا کہ کیوں مکہ کو مکہ کہا گیا؟ امام (ع) نے فرمایا: اس وجہ سے کہ زمین مکہ کے نیچے سے پھیلنا شروع ہوئی۔ مک کے معنی منظم حرکت کرنے کے ہیں۔ دحو الارض کی تفسیر میں بھی یہی آیا ہے کہ زمین مکہ سے دھیرے دھیرے پھیلنا شروع ہوئی اور حرکت کرنے لگی۔
و عنه عليه السّلام أيضا: «فلما خلق الله الأرض دحاها من تحت الكعبة ثم بسطها على الماء.
آپ سے ہی مروی ہے کہ جب خدا وند عالم نے زمین کو خلق کیا تو اس کا فرش کعبہ کے نیچے سے پھیلانا شروع کیا پھر اسے پانی پر پھیلا دیا۔
اس دن کے اعمال
یہ دن بہت بابرکت دن ہے اور اس کے کچھ مخصوص اعمال ہیں:
۱: روزہ رکھنا۔
۲: شب دحوالارض کو بیدار رہنا۔
۳: اس دن کی مخصوص دعائیں پڑھنا۔
۴: اس دن غسل کرنا اور ظہر کے نزدیک اس طریقے سے نماز پڑھنا۔
ہررکعت میں سورہ حمد کے بعد پانچ مرتبہ سورہ الشمس پڑھے اور سلام کے بعد کہے: لا حَوْلَ و لا قوَّهَ اِلّا بِالله العلي العظيم" اور اس دعا کو پڑھے " يا مُقيلَ الْعَثَراتِ اَقِلْني عَثْرَتي يا مُجيبَ الدَّعَواتِ اَجِبْ دَعْوَتي يا سامِعَ الْاَصْواتِ اِسْمَعْ صَوْتي وَ ارْحَمْني و تَجاوَزْ عَنْ سَيئاتي وَ ما عِنْدي يا ذَالْجَلالِ وَ الْاِکْرام.
۵: مفاتیح الجنان میں موجود اس دن کی دعا پڑھنا جو ان کلمات سے شروع ہوتی ہے : اللّهمّ يا داحِي الْکعبهَ وَ فالِقَ الْحَبَّه.. "