مہر خبررساں ایجنسی نے ترک اخبار صباح کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی نے اپنے قتل کے وقت آخری جملہ یہ ادا کیا تھا کہ " میرا دم گھٹ رہا ہے"۔ سعودی عرب کے خونخوار ولیعہد محمد بن سلمان کے جلادوں نے خاشقجی کو گلا دبا کر ہلاک کیا اور اس کے بعد اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ترک اخبار صباح نے دعویٰ کیا ہے کہ پلاسٹک کے تھیلے سے منہ کو ڈھانپ کر جمال خاشقجی کا دم گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ قتل کے وقت صحافی نے اکھڑتی سانس کے ساتھ آخری جملہ ادا کیا کہ " میرا دم گھٹ رہا ہے"۔صحافی خاشقجی کے قتل کے وقت کی آڈیو ریکارڈنگ میں صحافی اپنے قاتلوں کو کہتے ہیں کہ ’میرے منہ سے تھیلا ہٹاؤ مجھے بند جگہ سے خوف آتا ہے، جلدی ہٹاؤ میرا دم گھٹ رہا ہے لیکن قاتل اپنے ارادے کے پکے تھے، سات منٹ کی سفاکانہ کارروائی میں صحافی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ترک اخبار صباح کے چیف انویسٹی گیشن نے الجزیرہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ سعودی عرب سے آنے والے 15 حکام ہی قتل کے ذمہ دار ہیں جن میں کلیدی کردار فرانزک لیب کے سربراہ کا ہے جس نے قتل کو چھپانے کے لیے کمرے کے فرش اور دیواروں کو پلاسٹک سے ڈھک سے دیا تھا۔ سعودی فرانزک لیب کے سربراہ نے صحافی کے دم گھٹ کر مرجانے کے بعد مکمل طور پر پلاسٹک سے ڈھکے کمرے میں لاشوں کے ٹکڑے کیے تاکہ تفتیش کار قتل اور لاش کا کوئی سراغ لگانے میں ناکام رہیں۔ واضح رہے کہ ترک تفتیس کاروں نے قتل کے وقت صحافی کی گفتگو کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جب کہ صدر طیب اردوغان نے گزشتہ روز صحافی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو فراہم کردی ہے۔
روزنامہ صباح کا مزید کہنا ہے کہ عنقریب ان اوزاروں کی تصاویر بھی شائع کی جائیں گی جو جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے لئے آنے والے 15 سعودی اہلکار اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قاتلوں نے پہلے فرش پر پلاسٹک کی شیٹ بچھائی او رپھر اس کے اوپر جمال خاشقجی کے جسم کے ٹکڑے کئے۔ یہ عمل 15 منٹ میں مکمل ہوا جس کے بعد صحافی کے جسم کے ٹکڑے سعودی قونصل جنرل کے گھر منتقل کئے گئے۔ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ وہاں تیزاب میں ڈال کر جمال خاشقجی کے جسم کے ٹکڑوں کو مکمل طور پر تحلیل کردیا گیا۔