مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ نے نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے پاکستان الیکٹرنک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور چیئرمین کونسل آف کمپلینٹس سے 12 ستمبر تک عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ سول سوسائٹی کی رکن آمنہ ملک نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے نواز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست جمع کروائی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مامون رشید شیخ نے مذکورہ درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ نواز شریف نے جی ٹی روڈ ریلی کے دوران سپریم کورٹ کے ججز کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور اپنی نااہلی کو سازش قرار دیا۔ آمنہ ملک کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے درخواست میں کہا کہ 16 اراکین پارلیمنٹ نے پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے کے حوالے سے عدلیہ مخالف تقاریر کیں جو توہین عدالت کے دائرے میں آتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی متعصب ہیں اور حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں، اسی لیے عدلیہ مخالف بیان بازی پر ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ مخالف تقاریر کو میڈیا پر نشر کرنے سے روکنے کا حکم دے۔سماعت کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے جج مامون رشید شیخ نے ایڈوکیٹ اظہر صدیقی کی درخواست پر عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سمیت 16 اراکین پارلیمنٹ کے عدلیہ مخالف بیانات میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔
ادھر عدالت عالیہ نے چیئرمین پیمرا اور چیئرمین کونسل آف کمپلینٹس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 12 ستمبر تک جواب طلب کر لیا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزير اعظم نااہل قراردیدیا تھا۔