مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں: مسلمان کے صحیفہ حیات کا عنوان " حسن خلق " ہے خداوندعالم جسے جونعمت دیتاہے بہ ارادہ دوام دیتاہے ، لیکن وہ نعمت اس وقت زائل ہوجاتی ہے جب وہ مستحقین کودینابندکردیتاہے ۔
ولادت :
علماء کابیان ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ بمطابق ۸۱۱ ء یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے تھے (1) ۔
علامہ یگانہ جناب شیخ مفیدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولادآپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکاہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولادکیاہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی (2)۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاتھا کہ میرے یہاں جوبچہ عنقریب پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا (3) ۔
واقعہ ولادت کے متعلق لکھاہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں قیام کرو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدامجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی جب رات آئی توہمسایہ کی اورچندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ولادت کے بعدمیں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیامگرپھربھی اس حجرہ میں روشنی بدستوررہی ،اوراتنی روشنی رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا،
تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سراورآنکھوں پربوسہ دیے کرپھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بندرہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھلیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے ساراماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایاتعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدااوروصی رسول ہدی ہے اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا؟ محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرآئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں(مناقب)۔
نام کنیت اورالقاب:
آپ کااسم گرمی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ”محمد“ رکھا آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ اورآپ کے القاب جواد،قانع، مرتضی تھے اورمشہورترین لقب تقی تھا (4) ۔
مدینہ رسول سے فرزندرسول کوطلب کرنے کی غرض چونکہ نیک نیتی پرمبنی نہ تھی،اس لیے عظیم شرف کے باوجودآپ حکومت وقت کی کسی رعایت کے قابل نہیں متصورہوئے معتصم نے بغداد بلواکرآپ کوقیدکردیا، علامہ اربلی لکھتے ہیں ، کہ چون معتصم بخلافت بہ نشست آنحضرت راازمدینہ طیبہ بدارالخلافة بغداد آورد وحبس نمود (5)۔
ایک سال تک آپ نے قیدکی سختیاں صرف اس جرم میں برداشت کیں کہ آپ کمالات امامت کے حامل کیوں ہیں اورآپ کوخدانے یہ شرف کیوں عطا فرمایاہے بعض علماء کاکہناہے کہ آپ پراس قدرسختیاں تھیں اوراتنی کڑی نگرانی اورنظربندی تھی کہ آپ اکثراپنی زندگی سے بیزارہوجاتے تھے بہرحال وہ وقت آگیا کہ آپ صرف ۲۵ سال/ ۳ ماہ/ ۱۲ یوم کی عمرمیں قیدخانہ کے اندرآخری ذیقعدہ (بتاریخ ۲۹/ ذیقعدہ ۲۲۰ ہجری یوم سہ شنبہ) معتصم کے زہرسے شہیدہوگئے (6)۔
آپ کی شہادت کے متعلق ملامبین کہتے ہیں کہ معتصم عباسی نے آپ کوزہرسے شہیدکیا (وسیلة النجات ص ۲۹۷) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ کوامام رضاکی طرح زہرسے شہیدکیاگیا(صواعق محرقہ ص ۱۲۳) علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ”گویندیہ زہرشہیدشہ“ کہتے ہیں کہ آپ زہرسے شہیدہوئے (روضة الشہداء ص ۴۳۸) ۔ ملاجامی کی کتاب میں ہے ”قیل مات مسموما“ کہاجاتاہے کہ آپ کی وفات زہرسے ہوئی ہے (شواہدالنبوت ص ۲۰۴) ۔علامہ نعمت اللہ جزائری لکھتے ہیں کہ ”مات مسموما قدسمم المعتصم“ آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں اوریقینا معتصم نے آپ کوزہردیاہے،( انوارالعنمانیہ ص ۱۹۵)
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ انہ مات مسموما آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں ”یقال ان ام الفضل بنت المامون سقتہ ،بامرابیہا“ کہاجاتاہے کہ آپ کوآپ کی بیوی ام الفضل نے اپنے باپ مامون کے حکم کے مطابق (معتصم کی مددسے) زہردے کرشہیدکیا (7)۔
مطلب یہ ہواکہ مامون رشیدنے امام محمدتقی کے والدماجدامام رضا (ع) کواوراس کی بیٹی نے امام محمدتقی کوبقول امام شبلنجی شہیدکرکے اپنے وطیرہ مستمرة اوراصول خاندانی کوفروغ بخشاہے ، علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ ”دخلت امراتہ ام الفضل الی قصرالمعتصم “ کہ امام محمدتقی کوشہیدکرکے ان کی بیوی ام الفضل معتصم کے پاس چلی گئی بعض معاصرین لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے شہادت کے وقت ام الفضل کے بدترین مستقبل کاذکرفرمایاتھا جس کے نتیجہ میں اس کے ناسور ہوگیاتھا اوروہ آخرمیں دیوانی ہوکرمری۔
مختصریہ کہ شہادت کے بعد امام علی نقی علیہ السلام نے آپ کی تجہیزوتکفین میں شرکت کی اورنمازجنازہ پڑھائی اوراس کے بعدآپ مقابرقریش اپنے جدنامدار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پہلومیں دفن کئے گئے چونکہ آپ کے داداکالقب کاظم اورآپ کالقب جوادبھی تھا اس لیے اس شہرت کوآپ کی شرکت سے ”کاظمین“ اوروہاں کے اسٹیشن کوآپ کے داداکی شرکت کی رعایت سے ”جوادین“ کہاجاتاہے۔
اس مقبرہ قریش میں جسے کاظمین کے نام سے یادکیاجاتاہے ۳۵۶ ہجری میں مطابق ۹۹۸ ء میں معزالدولہ اور ۴۵۲ ہجری مطابق ۱۰۴۴ ء میں جلال الدولہ شاہان آل بویہ کے جنازے اعتقادمندی سے دفن کئے گئے کاظمین میں جوشاندارروضہ بناہواہے اس پربہت سے تعمیری دورگزرے لیکن اس کی تعمیر تکمیل شاہ اسماعیل صفوی نے ۹۶۶ ہجری مطابق ۱۵۲۰ ء میں کرائی ۱۲۵۵ ہجری مطابق ۱۸۵۶ ء میں محمدشاہ قاچارنے اسے جواہرات سے مرصع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔ (روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ،شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ، انورالنعمانیہ ص ۱۲۷) ۔
2 ۔ (ارشاد ص ۴۷۳)
3 ۔ (اعلام الوری ص ۲۰۰) ۔
4 ۔ (روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، شواہدالنبوت ص ۲۰۲ ، اعلام الوری ص ۱۹۹) ۔
5 ۔ (کشف الغمہ ص ۱۲۱)
6 ۔ (کشف الغمہ ص ۱۲۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، ارشاد ص ۴۸۰ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، انوارالحسینیہ ص ۵۴)
7 ۔ (نورالابصارص ۱۴۷ ،ارحج المطالب ص ۴۶۰)