ہندوستانی پولیس نے شمالی ریاست اترپردیش میں عورتوں کے بال کاٹنے کے پُر اسرار واقعات کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جن کے متعلق خواتین کا دعویٰ تھا کہ سوتے ہوئے کسی نے ان کے بال کاٹ دیئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستانی پولیس نے شمالی ریاست اترپردیش میں عورتوں کے بال کاٹنے کے پُر اسرار واقعات کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جن کے متعلق خواتین کا دعویٰ تھا کہ سوتے ہوئے کسی نے ان کے بال کاٹ دیئے۔اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک 65 سالہ خاتون کو اس شبہ میں تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا کہ وہ ایک چڑیل اور بالوں کی چوری میں ملوث تھیں۔اتر پردیش کے ایک عہدیدار انند کمار کے مطابق پولیس نے لوگوں کو مذکورہ خاتون کے 'چڑیل' ہونے یا 'بالوں کی چوری' میں ملوث ہونے کی افواہوں پر یقین نہ کرنے کو کہا ہے۔انند کمار کا کہنا تھا کہ گاؤں کی کمیٹی نے بھوتوں اور چڑیلوں کی جانب سے خواتین کے بال کاٹنے کی افواہوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ پولیس ان دعوؤں کی تحقیقات کررہی ہے۔پولیس حکام کے مطابق اسی طرح کی شکایات ہمسایہ ریاستوں ہریانہ اور نئی دہلی کے مضافات سے بھی موصول ہوئی ہیں جبکہ یہ افواہیں بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ یہ بال کالے جادو کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان افواہوں کی وجہ سے اتر پردیش میں والدین نے اپنے بچوں کو اسکول کے بعد گھروں تک محدود کررکھا ہے۔اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کی پولیس کا کہنا تھا کہ گذشتہ ہفتے یہ افواہیں اڑائی گئیں کہ کوئی خواتین کے بال کاٹ رہا ہے۔ایک پولیس افسر کے مطابق یہ افواہیں دہلی کے مضافاتی علاقوں اور مغربی اتر پردیش تک پھیل گئیں اور اب آئے روز پولیس کو اس نامعلوم بھوت کے حوالے سے شکایات موصول ہوتی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین اپنے کٹے ہوئے بالوں کے ہمراہ تھانے میں آئیں اور بالوں کو کاٹنے کے حوالے سے کہانیاں سنائیں۔

آگرہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون منی دیونی کا کہنا ہے کہ وہ معمول کے مطابق سو رہی تھیں کہ کسی نے ان کے بال کاٹ کر ان کے قریب رکھ دیئے۔خاتون کا دعویٰ تھا کہ نہ ہی انہیں اور نہ ہی ان کے خاوند نے ان کے بالوں کے کاٹنے کی آواز سنی۔

ادھر آگرہ کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات راکیش گاور کا کہنا تھا کہ بھوت خواتین کے بال نہیں کاٹتے، یہ شرارت کے سوا کچھ نہیں۔