مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں مناسب وقت پر سنایا جائے گا.عدالت نےوزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے مزید دستاویز پیش کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مزید استدعا سننے کی صلاحیت نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ ہم پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں ۔" گارنٹی دیتے ہیں نااہلی کا معاملہ زیر غور لائیں گے اور فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہو گا " ۔ دیکھنا ہو گا جے آئی ٹی رپورٹ کا ایسا کونسا مواد ہے جس پر فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔اپنا 20اپریل والا فیصلہ بھی پتہ ہے اور دلائل بھی سن لیے ہیں ، اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔وزیر اعظم نے اثاثے ظاہر نہ کیے تو نااہلی کا معاملہ آئے گا ۔وزیر اعظم نے کہا اثاثے ہمارے ہیں ۔ ’’ہمارے میں ‘‘میں وزیر اعظم بھی آتا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئےکہ وزیراعظم نے پر اسرار ثبوت اسپیکر قومی اسمبلی کو دیئے ہمیں کیوں نہیں دیئے،ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں۔سب کے بنیادی حقوق کا احساس ہے ، فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں ،ہمیں کچھ نہ کہیں۔ جس چیز کی آئین نے اجازت نہ دی وہ نہیں کریں گے ۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے کیس کو روزانہ سنا ۔بہت زیادہ تفصیل دینا بھی کیس کو برباد کر دیتا ہے۔پراسیکیوٹر نیب چودھری اکبر ڈارنے عدالت کو بتایا کہ نیب نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ایک ہفتے کے اندرسپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جائے گی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کا شکریہ ۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ نا اہلی کیلئے مریم نواز کا نیلسن اور نیسکول کمپنی کی بینی فیشل ہونا کافی نہیں ہے بلکہ معاملہ کفالت کا آئے گا۔مریم نوا زکے زیر کفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر پانامہ عملدرآمد کیس کی پانچویں سماعت کی ۔ وزیرا عظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل دیئے جس کے بعد درخواست گزار تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری ، توفیق آصف اور شیخ رشید نے جواب الجواب دیئے ۔نیب کے وکیل اورایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی اپنے دلائل مکمل کیے۔بینچ کے سربراہ جسٹس اعجا ز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا عوامی عہدہ رکھنے والے پر ملازمت کی پابند ی ہے؟ ججز پر تو آئین میں واضح پابندی موجود ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیرا عظم پر ایسی کوئی واضح پابندی عائد نہیں کی گئی۔ سماعت کے آغاز میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ ما ہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا ، کسی بھی صورت جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی ۔ عدالت نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست پر جے آئی ٹی رپورٹ کا خفیہ رکھا گیا والیم نمبر 10بھی کھول دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس لا فرم کی دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں وہ تصدیق شدہ نہیں ۔وزیراعظم نے پر اسرار ثبوت اسپیکر قومی اسمبلی کو دیے ہمیں کیوں نہیں دیئے؟وزیر اعظم نے ”ہمارے اثاثے “ میں خود کو بھی شامل کیا تھا ۔شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے۔پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر حدیبیہ پیپر مل پر اپیل دائر کر دی جائے گی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا شکریہ۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہوں تو کیا ہوگا ؟یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا ہے۔عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کیا تھا ۔ وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں۔پبلک آفس ہولڈر نے قومی اسمبلی میں کہا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن فلیٹس خریدے۔ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں ۔مریم نواز بینی فشل مالک ہیں یہ کیپٹن صفدر نے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا ۔ہوسکتا ہے اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے ، آپ حدیبیہ پیپر مل کیس میں شامل تھے ۔خدیبیہ پیپر ملز کیس میں اسحاق ڈار کے خلاف کافی مواد موجود ہے۔
درخواست گزاروں کے جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا تاریخی فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جس کو سنائے جانے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔