اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ 2010 کے دوران ہیٹی میں پھیلنے والی ہیضے کی وبا اقوامِ متحدہ کی وجہ سے پھیلی تھی جس سے 8 لاکھ افراد متاثر اور ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ 2010 کے دوران ہیٹی میں پھیلنے والی ہیضے کی وبا اقوامِ متحدہ کی وجہ سے پھیلی تھی جس سے 8 لاکھ افراد متاثر اور ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ہیٹی میں اس وبا کے اثرات آج تک جاری ہیں حالانکہ اس ملک میں پچھلے 100 سال کے دوران ہیضے کی وبا کبھی نہیں آئی تھی۔ اپنے اعترافی بیان میں بان کی مون نے کہا کہ ہیٹی سے یہ وبا ختم کرنے کے لیے ابھی ’’بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘ لیکن نیویارک ٹائمز نے اقوامِ متحدہ کی کچھ خفیہ دستاویزات کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ ہیٹی میں کارروائی نہ کرتی تو وہاں ہیضے کی وبا بھی نہ پھیلتی۔ہیضہ ’’وبریو کولریا‘‘ نامی جرثوموں کی وجہ سے ہوتا ہے جو انسانی فضلے کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ 2010 سے ایک صدی پہلے تک ہیٹی میں ہیضے کی وبا کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن اُس سال وہاں دریائے میئل کے قریب سے یہ وبا شروع ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں ایک وسیع علاقے میں پھیل گئی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے 454 اہلکار ہیٹی بھیجے گئے تھے جو اس سے پہلے ہیضے کی وبا سے متاثرہ نیپال میں تعینات تھے۔ان فوجیوں کا قیام دریائے میئل کے قریب ایک اڈے میں تھا اور اس اڈے سے خارج ہونے والا فضلہ مسلسل دریا میں شامل ہوتا رہتا تھا۔ ہیٹی میں ہیضہ پھیلنے کی واحد ممکنہ وجہ ان ہی لوگوں کا فضلہ ہوسکتا تھا جو دریا میں شامل ہورہا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وبا سے کم از کم 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔۔ اب تک اقوامِ متحدہ نے اس وبا کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور اپنا یہ مؤقف برقرار رکھا تھا کہ ہیٹی میں ہیضے کی وبا پھیلنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن نیویارک یونیورسٹی کے فلپ ایلسٹن نے جو اقوامِ متحدہ کے ماہرین میں بھی شامل رہے ہیں، اس سارے واقعے کی تفصیل سے چھان بین کرنے کے بعد 19 صفحے کی ایک رپورٹ مرتب کرکے چند ہفتے پہلے بان کی مون کے سپرد کی۔ہیٹی میں ہیضے کی وبا اب تک قابو سے باہر ہے جس سے بیمار پڑنے والوں اور مرنے والوں کی تعداد ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔