مہر خبررساں ایجنسی نے بی بی سی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ برطانیہ مین عراق جنگ کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے برطانوی فوجیوں کو جنگ میں جھونکنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق پر حملہ کا فیصلہ حسن نیت سے کیا گیا تھا اور میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ ٹونی بلیئر نے کہا کہ عراق پرحملہ ان کے دس سالہ دورحکومت کا سب سے سخت ترین اور اذیت ناک فیصلہ تھا، وہ اس فیصلے پر عوام میں پائی جانے والی تقسیم سے آگاہ ہیں اور اپنے پیاروں کو کھونے والوں کے دکھ اور درد کو محسوس کرتے ہیں،چاہے وہ برطانیہ ،عراق یا کسی دوسرے ملک کی فوج ہی سے تعلق رکھتے ہوں ۔ٹونی بلیئر کا کہنا تھا کہ لوگ صدام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں میرے فیصلے سے متفق ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن میں نے یہ اچھی نیت سے کیا اور میرا خیال ہے کہ یہ ملک کے بہترین مفاد میں تھا،میں اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ صدام کو ہٹانے کی وجہ سے آج ہمیں مشرق وسطیٰ یا کسی دوسری جگہ آج دہشت گردی نظر آتی ہے۔
انہوں نے رپورٹ میں عراق کے بارے برطانوی انٹیلی جنس پر اٹھائے گئے سوالات پر کہا کہ’’ چلکوٹ رپورٹ‘‘ میں انٹیلی جنس کے غیر مناسب استعمال یا جعل سازی کے بارے میں انہیں معلوم نہیں لیکن برطانوی کابینہ کو دھوکہ دینے اورامریکی صدر جارج بش سے خفیہ طور پر جنگ کا وعدہ کرنے کی باتیں بھی غلط ہیں ۔دوسری طرف عراق جنگ میں مارے جانے والے برطانوی فوجیوں میں سے چند کے اہل خانہ نے ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں برطانوی فوجیوں کے قتل کے ذمہ دار ٹونی بلیئر ہی ہیں جنہوں نے ہمارے پیاروں کو بے مقصد جنگ میں جھونک دیا تھا ،جبکہ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے’’ دارا لعوام ‘‘میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ہفتے اس رپورٹ پر پارلیمان پورا دن بحث ہو گی،ہمعراق جنگ میں مارے گئے فوجیوں کی ناقابل یقین قربانیوں کو نہیں بھولیں گے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ ملک پر قربان کر دیا تھا ۔