برطانیہ نے عراق جنگ کے حوالے سے سرکاری سطح پر انکوائری کی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 2003 میں بغداد میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کی تیاری ثابت نہیں ہوئی اور برطانیہ نے اس جنگ میں شرکت کرکے اشتباہ کا ارتکاب کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے بی بی سی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ برطانیہ نے عراق جنگ کے حوالے سے سرکاری سطح پر انکوائری کی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 2003 میں بغداد میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کی تیاری ثابت نہیں ہوئی اور برطانیہ نے اس جنگ میں شرکت کرکے اشتباہ کا ارتکاب کیا۔ عراق جنگ سے متعلق انکوائری کرنے والے کمیشن کے سربراہ سر جان چلکوٹ نے 2003 میں عراق پر حملے میں برطانوی شمولیت کے حوالے سے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کہ مارچ 2003 میں برطانیہ کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا اور جن حالات کو جواز بنا کر عراق جنگ میں برطانوی فوجی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا وہ غیر تسلی بخش تھا، جوائنٹ  انٹیلی جنس کمیٹی کو اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر پر واضح کرنا چاہیے تھا کہ خفیہ معلومات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عراق کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیار بنانے یا جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت فوجی آپریشن آخری حل نہیں تھا جب کہ برطانیہ نے عراق جنگ میں شمولیت سے پہلے پرامن طریقوں کو بھی استعمال نہیں کیا، برطانیہ کو عراق پر حملے سے پہلے ہتھیاروں کو ترک کرنے کے پر امن طریقوں کا دیکھنا چاہیے تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کے خطرات کو جس یقین کے ساتھ پیش کیا گیا تھا وہ ثابت نہیں ہو سکے۔

سر جان چلکوٹ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی عراق جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی بھی مکمل طور پر ناقص تھی، واضح خطرات کے باوجود حملے کے نتائج کو نظر انداز کیا گیا جب کہ صدام کے بعد عراق کے بارے میں کی جانے والی منصوبہ بندی اور تیاریاں بھی انتہائی نامناسب تھیں جس کی وجہ سے حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ رپورٹ کے مطابق عراق پر جنگ مسلط کرکے دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا گیا جو آج پوری دنیا کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔