حضرت امام حسین (ع) تین شعبان المعظم سن 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اللہ تعالی نے آپ کے وسیلہ سے فطرس کو دوبارہ بال و پر عطا کردیئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام حسین (ع) تین شعبان المعظم سن 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں، آپ کے والد حضرت علی مرتضی (ع) ہیں اور آپ کے نانا سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

 امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعدسرورکائنات صلعم نے حضرت امام حسین (ع)  کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا،اس کے بعدداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرما کر حسین نام رکھا (1)
علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کا رکھاہواہے (2)
کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھاہواہے۔

آپ کاعقیہ

امام حسین کانام رکھنے کے بعد سرورکائنات نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا  سے فرمایاکہ بیٹی جس طرح حسن کاعقیقہ کیاگیاہے اسی طرح حسین (ع) کے عقیقہ کابھی انتظام کرو،اوراسی طرح بالوں کے ہم وزن چاندی تصدق کرو، جس طرح اس کے بھائی حسن (ع) کے لیے کرچکی ہو ،الغرض ایک مینڈھا منگوایاگیا،اوررسم عقیقہ اداکردی گئی (3) ۔

کنیت والقاب

آپ کی کنیت صرف ابوعبداللہ تھی ،البتہ القاب آپ کے بے شمارہیں جن میں سیدو سبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ سبط اورسیدخودرسول کریم کے معین کردہ القاب ہیں (4)

آپ کی رضاعت

اصول کافی باب مولدالحسین ص ۱۱۴ میں ہے کہ امام حسین نے پیداہونے کے بعدنہ حضرت فاطمہ زہراکاشیرنوش کیااورنہ کسی اوردائی کادودھ پیا، ہوتایہ تھا کہ جب آپ بھوکے ہوتے تھے توسرورکائنات تشریف لاکرزبان مبارک دہن اقدس میں رکھ دیتے تھے اورامام حسین اسے چوسنے لگتے تھے ،یہاں تک کہ سیر وسیرآب ہوجاتے تھے ،معلوم ہوناچاہیے کہ اسی سے امام حسین کاگوشت پوست بنااورلعاب دہن رسالت سے حسین پرورش پاکر کاررسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے یہی وجہ ہے کہ آپ رسول کریم سے بہت مشابہ تھے (5)۔

خداوندعالم کی طرف سے ولادت امام حسین (ع) کی تہنیت اورتعزیت

علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسین کی ولادت کے بعدخلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمدمصطفی (ص) کومیری طرف سے حسین (ع) کی ولادت پرمبارک بادد یدو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت اداکردو،جناب جبرئیل بحکم رب جلیل زمین پرواردہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی جانب سے آنحضرت کی خدمت میں شہادت حسینی کے سلسلے میں تعزیت بھی پیش کی ،یہ سن کرسرورکائنات کاماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا ،جبرئیل ماجراکیاہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل نے عرض کی کہ مولاایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے پیارے فرزند”حسین“ کے گلوئے مبارک پرخنجرآبداررکھاجائےگا اورآپ کایہ نورنظربے یارومددگارمیدان کربلامیں یکہ وتنہاتین دن کابھوکاپیاسا شہیدہوگا یہ سن کرسرور دو عالم (ص)محوگریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین علی علیہ السلام  کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ ہوگئے ۔
جناب سیدہ (س)  نے جوحضرت علی (ع) کوروتادیکھا دل بے چین ہوگیا،عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیاہے فرمایابنت رسول ابھی جبرئیل آئے ہیں اوروہ حسین کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبرہونے کے بعد فاطمہ کے گریہ گلوگیرہوگیا،آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا،فرمایاجب میں نہ ہوں گانہ توہوگی نہ علی ہوں گے نہ حسن ہوں گے فاطمہ نے پوچھابابامیرابچہ کس خطاپرشہید ہوگافرمایا فاطمہ بالکل بے جرم وخطاصرف اسلام کی حمایت میں شہادت ہوگی، فاطمہ نے عرض کی باباجان جب ہم میں سے کوئی نہ ہوگا توپھراس پر گریہ کون کرے گااوراس کی صف ماتم کون بچھائے گا،راوی کابیان ہے کہ اس سوال کاحضرت رسول کریم (ص) ابھی جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی، اے فاطمہ غم نہ کروتمہارے اس فرزندکاغم ابدالآباد تک منایاجائے گا اوراس کی عزاداری قیامت تک جاری رہے گی ایک روایت میں ہے کہ رسول خدانے فاطمہ کے جواب میں یہ فرمایاتھا کہ خداکچھ لوگوں کوہمیشہ پیداکرتارہے گا جس کے بوڑھے کربلا کے بوڑھوں پراورجوان ، کربلا کےجوانوں پراوربچے، کربلا کے بچوں پراورعورتیں ، کربلا کی عورتوں پر گریہ وزاری کرتے رہیں گے۔

فطرس کاواقعہ

علامہ مذکوربحوالہ حضرت شیخ مفید علیہ الرحمہ رقمطرازہیں کہ اسی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ ان کی نظرزمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھاکہ ایک فرشتہ زمین پرپڑاہوا زار و قطار رو رہاہے آپ اس کے قریب گئے اورآپ نے اس سے ماجرا پوچھااس نے کہااے جبرئیل میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرسترہزارفرشتوں کی قیادت کرتاتھا میرانام فطرس ہے جبرئیل نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ،مرضی معبودکے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہاہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاں کنج تنہائی میں پڑاہوں ۔
اے جبرئیل خدارا میری کچھ مددکرو ابھی جبرئیل جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیا اے روح الامین آپ کہاں جارہے ہیں انہوں نے فرمایاکہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی (ص) کے یہاں ایک فرزندپیداہواہے جس کانام حسین (ع) ہے میں خداکی طرف سے اس کی تہنیت پیش کرنے کے لیے جارہاہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل خداکے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی درسے شفااورنجات مل سکتی ہے جبرئیل اسے ساتھ لے کر حضورکی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین (ع) آغوش رسول (ص) میں جلوہ فرماتھے جبرئیل نے عرض حال کیا،سرورکائنات نے فرمایاکہ فطرس کے جسم کوحسین (ع) کے بدن سے مس کردو ،شفاہوجائے گی جبرئیل نے ایساہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔
وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتاہوااپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجاپہنچا اور حسب سابق سترہزارفرشتوں کی قیادت کرنے لگا ،بعدازشہادت حسین چوں برآں قضیہ مطلع شد“ یہاں تک کہ وہ زمانہ آیاجس میں امام حسین (ع) نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ مین زمین پرجاکردشمنان حسین (ع) سے جنگ کروں ارشادہواکہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ توسترہزارفرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ ماتم کیاکراوراس کاجوثواب ہواسے ان کے رونے والوں کے لیے ہبہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلاپرجاپہنچا اورتا قیام قیامت شب وروز روتارہے گا ۔ (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1: (نورالابصار ص ۱۱۳)

2: (ارجح المطالب وروضة الشہداء ص ۲۳۶)

3: (مطالب السؤل ص ۲۴۱) ۔
4: (مطالب السؤل ص ۳۱۲)

5: (نورالابصار ص ۱۱۳)

6: (روضة الشہداازص ۲۳۶ تاص ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵ ئھ وغنیة الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی)