مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں گزشتہ ایک ہفتے سے وفاقی حکومت کو متنبہ کر رہی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینے سے ملک میں اس کے ممکنہ طور پر خطرناک فرقہ وارانہ اثرات سامنے آئیں گے اور پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں غیر جانبدار رہنا چاہے لیکن سعودی عرب پاکستان کو خریدنے اور اس کے استقلال پر اثر انداز ہونے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے. پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ کی سربراہی میں تقریباً تمام اپوزیشن رہنما اور چند حکومتی بینچ کے ارکان جیسا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی ایک فریق کے حق میں موقف اپنانے سے ملک میں بدامنی پیدا ہوگی۔اسی طرح سعودی عرب اور ایران کے سفیروں سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ حکومت کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ پاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے غیر ملکی فنڈز حاصل کرنے والے مدارس کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ 285 میں سے دو تہائی مدارس کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر سے مالی مدد اور فنڈز حاصل ہوتے ہیں۔جبکہ ایک تہائی کو عراق اور ایران سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں تقریباً 147 مدارس ایسے ہیں، جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کی مالی مدد سے چلتے ہیں، جبکہ 25 کو عراق اور ایران سے فنڈز ملتے ہیں۔
نیم خود مختار گلگت بلتستان میں 95 مدارس ایسے ہیں جنہیں مسلسل غیر ملکی مالی مدد حاصل ہے، ان میں ایک تہائی مدارس کو سعودی عرب جبکہ دیگر کو ایران سے فنڈز ملتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے 30 مدارس ہیں، جن میں 25 کو سعودی عرب جبکہ 5 کو ایران سے مالی مدد حاصل ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر وزارت داخلہ کی اس فہرست میں صوبہ خیبر پختونخوا سے صرف 12 ایسے مدارس کے نام سامنے آئے ہیں جنہیں غیر ممالک سے مالی مدد حاصل ہوتی ہے اور ان تمام مدارس کو سعودی عرب یا کویت سے فنڈز حاصل ہوتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں صرف ایک مدرسہ سامنے آیا جسے غیر ملک سے مالی مدد ملتی ہے۔ اورنگی ٹاؤن میں واقع مدرسہ امیر دولت قطر و دارالعلوم حنفی جس زمین پر قائم ہے وہ 40 سال قبل قطر کی جانب سے عطیہ کی گئی تھی اور آج وہاں تقریباً 500 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس مدرسے کو اب بھی قطر سے مالی مدد حاصل ہے۔
وزارت داخلہ کے ایک سینیئر آفیشل نے ڈان کو بتایا کہ مدارس کو سعودی عرب اور ایران کی جانب سے مالی مدد دیئے جانے کا سلسلہ جنرل ضیا الحق کے دور حکومت سے جاری ہے، اس لیے اس کی جڑوں تک پہنچنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔