پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وہابی دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں مشتبہ قرار دیئے جانے والے 200 وہابی مدارس کے بینک اکاؤنٹس سے کوئی ایک بھی اہم معاملہ اور ٹرانزیکشن سامنے نہیں آسکی ہے.

مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وہابی دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں مشتبہ قرار دیئے جانے والے 200 وہابی مدارس کے بینک اکاؤنٹس سے کوئی ایک بھی اہم معاملہ اور ٹرانزیکشن سامنے نہیں آسکی ہے.اس بات نے فورسز مجبور کردیا ہے کہ وہ ان مدارس کی جانب سے رقم کی منتقلی کے لیے استعمال ہونے والے کسی دوسرے چینل  کو ٹریس کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

وہابی مشتبہ مدارس کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ہے کہ مدارس کے اکاؤنٹس میں صرف چند ہزار روپے ہی موجود ہیں اور یہ بات تشویش میں اضافہ کررہی ہے کہ یہ مدارس رقم کی منتقلی کے لیے کوئی دوسرا طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مدارس اپنے نام سے یا کسی دوسرے فرد کے نام سے حوالہ اور ہنڈی کا استعمال یا پھر براہ راست کیش جمع کیا کرتے تھے۔

عہدیدار نے کہا کہ ’جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) نے مشتبہوہابی  مدارس کے بینک ٹرانزیکشن کی جانچ پڑتال کا کام مکمل کرلیا ہے اور ان مدارس کے معاملات چلانے کے لیے رقم کی فراہمی کے طریقوں کے حوالے سے اب وہ ان مدارس کے منتظمین کے بیانات ریکارڈ کرے گي۔

جے آئی ٹی میں محکمہ انسداد دہشت گردی، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ، قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی، پنجاب ہوم ڈپارٹمنٹ اور متعدد دیگر ایجنسیز کے عہدیدارں نے مشترکہ طور پر مشتبہ مدارس کی ایک فہرست مرتب کی تھی، ان مدارس پر الزام ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کے لیے مالی معاونت یا فنڈنگ غیر قانونی طریقے سے حاصل کی۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں نے ان تمام (مشتبہ مدارس) کی فہرست تیار کی ہے جن کے طلبہ دہشت گردی یا دیگر مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جن مدارس نے کوئی اہم بینک ٹرانسیکشن نہیں کی ہے وہ فنڈز کو خفیہ رکھنے اور رقم کی منتقلی کیلئے غیر قانونی طریقے استعمال کررہے تھے۔

خیال رہے کہ پنجاب کے ان 200 مشتبہ مدارس میں نصف مدارس جنوبی پنجاب کے شہروں ڈیرہ غازی خان، مظفر آباد، میاں والی، خوشاب، لیہ، راجن پور، ملتان، لودھراں، بہاولپور، بھاولنگر، وہاڑی، بھکر اور جھنگ میں قائم ہیں جبکہ دیگر 100 مدارس صوبے کے دیگر حصوں میں موجود ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے حال ہی میں ’دہشت گردوں مالی معاونت کرنے والوں اور سہولت کاروں‘ کو پکڑنے کے لیے قومی دہشت گرد فنانسنگ تحقیقاتی سیل مرتب کیا ہے۔

مزکورہ سیل کے تحت اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے، فیڈرل بورڈ آف ریوینو اور حساس ادارے مشترکہ طور پر کام کررہے ہیں تاکہ دہشت گردوں کے لیے قومی اور بین الاقوامی بینکوں کے ذریعے ہونے والی مالی ٹرانسیکشن کو ٹریک کیا جاسکے۔واضح رہے کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد نینشل ایکشن پلان کے آغاز سے اب تک اسٹیٹ بینک نے کالعدم تنظیموں کے 126 اکاؤنٹس کو منجمند کیا ہے جن میں ارب روپے کی رقم موجود تھی، جبکہ حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے انھیں 25 کروڑ روپے فراہم کئے گئے تھے۔