مہر خبررساں ایجنسی نے بی بی سی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے قانون نافد کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں کیونکہ ان کی سرگرمیاں امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے شدید خطرہ ہیں مولانا عبدالعزیز کا تعلق وہابی دہشت گردوں تنظیموں سے ہےاور ان کے زیر نظر ادارے داعش کے رہنما ابو بکر بغدادی کی حمایت کررہے ہیں۔۔
وزارت داخلہ کی طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ سویلین اور خفیہ فوجی اداروں کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب نے ملک میں تحریک نفاذ قرآن و سنت کے اعلان کے بعد ایسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اُن کی تحریک میں شمولت پر قائل کیا جا رہا ہے۔
اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب وفاقی دارالحکومت میں امن وامان کی صورت حال خراب کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے عجیب وغریب رویے، بین الاقوامی برادری میں ملک کے تشخص کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مشکوک سرگرمیاں بھی شہر میں بدامنی کا باعث بن سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ مولانا عبدالعزیز کی زیر نگرانی خواتین کے مدرسے جامعہ سمیعہ (سابق جامعہ حفصہ) کی طالبات نے کچھ عرصہ قبل وہابی دہشت گرد تنظیم داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس سے پاکستان میں آ کر اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔اس خط کے بعد اسلام آباد پولیس نے ان طالبات کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے وزارت قانون کو ایک مراسلہ بھیجا تھا تاہم اس پر ابھی تک حکومت کی طرف سے پولیس حکام کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پاکستانی حکومت کی بعض حوالوں سے عبد العزیز کو سرپرستی بھی حاصل ہے عبدالعزیز اعلانیہ طور پر طالبان کے حامی اور دہشت گرد تنظیموں کو تعاون فراہم کررہے ہیں۔ لیکن حکومت ان کے خلاف کارروائی کے بجائے صرف اعلامیوں پر ہی اکتفا کرتی ہے۔مولانا عبدالعزیز نے پشاور میں فوجی اسکول پر طالبان کے حملے کو جائز قراردیا تھا اور طالبان کی حملے کی حمایت کی تھی۔