مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی برسر اقتدار پارٹی مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جب کہ حکومت کو پہلے دن سے اس سازش کا علم تھا۔ ذرائع کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومت کو لندن میں طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان ملاقات میں آئی ایس آئی کے چند لوگوں کی موجودگی کا علم تھا جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا ہے تاہم حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی قیمت پر دھرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ بعض طاقتیں چاہتی تھیں کہ حکومت طاقت کا استعمال کرے اور ان کی سازش پر عمل کا راستہ ہموار ہوجائے۔
مشاہد اللہ خان نے کہا کہ آئی بی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو دھرنے کے دوران افراتفری پھیلانے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کے لیے ہدایت دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ظہیر الاسلام کی یہ ریکارڈ ٹیپ 28 اگست کی شام وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ملاقات کے دوران سنائی جسے سن کر وہ حیران ہوگئے اور انہوں نے اس وقت جنرل ظہیر کو میٹنگ میں بلا کر ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے اس آواز کی تصدیق کرنا چاہی جس پر جنرل ظہیر الاسلام نے ٹیپ میں اپنی آواز کے ہونے کی تصدیق کی جس کے بعد آرمی چیف نے انہیں میٹنگ سے جانے کو کہا۔
وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بڑی تباہی ہونا تھی کیونکہ اس ٹیپ میں کھلی سازش تیار کی جارہی تھی جس میں وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کی بھی بات تھی جب کہ اس سازش کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نوازشریف نہیں بلکہ اس میں آرمی چیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سازش میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ایسے اختلافات پیدا کرنا بھی شامل تھے جس میں وزیراعظم مجبور ہوکر جنرل راحیل کے خلاف ایکشن لیں اور اس کے نتیجے میں فوج اقتدار پر قابض ہوجائے۔
مشاہد اللہ نے کہا کہ اگر جنرل راحیل شریف کو حکومت ختم کرنے کی خواہش ہوتی تو اس کے لیے کسی دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف اس طرح کے اقدام پر کارروائی کی جاسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر کیسز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تو درج کیا لیکن ان کے خلاف ایسی کارروائی نہیں ہوسکی جس طرح حکومت چاہتی تھی جب کہ اب وزیراعظم کی ساری توجہ ملکی استحکام پر ہے اس لیے وہ ایسے موقع پر ایسی انکوائری یا کارروائی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔