ہندوستان کی ریاست اترپردیش کی حکومت کی جانب سے شیعہ وقف خوروں کی حمایت کے بعد شیعہ رہنما مولانا کلب جواد نےاپنی دینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے شیعہ وقف کو بچانے کے لئے پرامن جد و جہد اوراحتجاج شروع کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے آج پرامن احتجاج کے دوران اپنی گرفتاری پیش کردی ان کے ہمراہ لاکھوں افراد گرفتاری دینے کے لئے موجود تھے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے آر این آئی اور ہندوستان کے دیگر ذرائع ابلاغ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستان کی ریاست اترپردیش کی حکومت کی جانب سے شیعہ وقف خوروں کی حمایت کے بعد شیعہ رہنما مولانا کلب جواد نےاپنی دینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے شیعہ وقف کو بچانے کے لئے پرامن احتجاج شروع کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے پرامن احتجاج کے دوران اپنی گرفتاری پیش کردی۔اترپردیش کی حکومت وزیر اوقاف  اعظم خان اور وسیم رضوی جیسے وقف خوروں کی بھر پور حمایت کررہی ہے مولانا کلب جواد کے ہمراہ لاکھوں افراد کرپشن کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے کرپشن و ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی گرفتاری پیش کردی ۔

ہندوستانی شیعوں کے رہنما مولانا کلب جواد کو آج لکھنؤ میں حکومت نے ان کے لاکھوں حامیوں کے ساتھ گرفتار کرلیا ۔مولانا کلب جواد کی آواز پر روز گذشتہ کی مانند آج بھی لکھنؤ کے چھوٹے امام باڑے میں عوام کا ایک سیلاب امڈ پڑا۔ تمام لوگ گرفتاری دینے کے لئے ایکدوسرے پر سبقت کرتے نظر آئے لیکن ہزاروں لوگوں کو گرفتار کرنے کے باوجود کئی گنا ایسے باقی رہ گئے جو گرفتاری دینے کے خواہشمند تھے لیکن بسوں کی کمی پڑ جانے کے سبب پولس نے ان کو گرفتار نہیں کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق آج اتر پردیش حکومت نے ۸۰بسوں کا انتظام کیا تھا تاکہ کلب جواد کے ساتھیوں کو گرفتار کیا جا سکے۔ لیکن روز گذشتہ کی مانند آج بھی لکھنؤ کی گلی کوچوں سے مرد و عورت سڑکوں پر اتر آئے اور ایک بڑی تعداد میں چھوٹے امام باڑے پہنچے تاکہ مولانا کلب جواد کی حمایت میں گرفتاری دے سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق آج تقریباً ۸۰۰۰۰ لوگ چھوٹے امام باڑے میں جمع تھے جو روز گذشتہ جمع ہونے والے افراد سے تعداد میں کافی کم ہونے کے باوجود اتنا زیادہ تھے کہ ان کو گرفتار کرنے میں حکومت کے پسینے چھوٹ گئے اور صرف دس فی صد کے قریب افراد کو ہی گرفتار کیا جا سکا۔ اطلاعات کے مطابق جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کو گرفتار کرنے کے لئے کل۸۰کے قریب بسیں ہی آئی ہیں تووہ گرفتاری دینے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔آر.این.آئی. کے نامہ نگار کے مطابق عام طور پر لوگ گرفتاری کا نام سن کر بھاگنے لگتے ہیں لیکن مولانا کلب جواد کا جادو ایسا سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ وہ بسوں میں بیٹھنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب بس کے اندر جگہ نہیں بچی تو کئی افراد بس کی چھتوں پر بیٹھ گئے لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگ گرفتاری دینے سے رہ گئے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق مولانا کلب جواد کو للت پور کی جیل بھیجا گیا ہے لیکن ان کے ساتھیوں کو اناؤ اور دوسری جیلوں میں بھیجا گیا ہے۔ آر.این.آئی. سے بات چیت میں ایک ضعیف شخص نے جو گرفتاری دینے کا خواہشمند تھا لیکن پولس نے اس کو بسوں میں نہیں بیٹھنے دیا بتایا:صرف کلب جواد کے ساتھی ہی ایسے ہیں کہ پولس گھر بھیجتی رہی اور وہ گرفتاری دینے کے لئے ایک دوسرے کو پیچھے ڈھکیل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر کار ۸۰ بسوں میں اور ان کی چھتوں پر جتنا سما پائے اتنا آئے اور ہزاروں لوگ مایوس واپس ہوئے کہ اپنے قائد کے ساتھ گرفتاری نہیں دے سکے۔ غور طلب ہے کہ گذشتہ روز مولانا کلب جواد نے اپنے ساتھیوں کو جیل بھرو تحریک میں شامل ہونے کے لئے بلایا تھا۔ دہلی اور اتر پردیش کے کئی اضلاع میں کل بھی بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ لیکن لکھنؤ میں ایک جم غفیر سڑکوں پر نکل آیا تھا جو ایک لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان افراد پر مشتمل تھا۔ حکومت نے صرف ۱۸ بسوں کا ہی انتظام کیا تھا۔ اس پر مولانا کلب جوادانتظامیہ کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنے تقریر میں کہا تھا کہ محض ۱۸ بسوں کا انتظام کرکے انتظامیہ ہمارا مذاق اڑانا چاہتی ہے اور ہم کل پھر جمع ہوں گے، انتظآمیہ ۱۰۰۰ بسوں کا انتظام کرکے آئے اور ہمیں گرفتار کرے۔ آج اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود انتظامیہ صرف ۸۰ بسوں کا ہی انتظام کر پایی جس میں لوگوں کو بھر کر مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ واضح رہے کہ گذشتہ کئی روز سے مولانا کلب جواد لکھنؤ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کو ہٹانے اور ان کی حمایت کرنے والے اترپردیش کی حکومت کے وزیراوقاف  اعظم خان کے خلاف مہم چلائے رہے ہیں جنھوں نے شیعہ وقف کو تباہ و برباد کردیا ہے اور اسی سلسلے میں اتوار کو لکھنؤ اور دیگر شہروں میں گرفتاری دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اتوار کو مولانا کلب جواد نے کہا تھا کہ سماجوادی حکومت دیکھ لے کہ وقف خوروں کے ساتھ کتنے لوگ ہیں اور وقف بچآنے والے کتنے لوگ ہیں۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ وقف جائدادوں کو برباد نہیں ہونے دیا جائیگا اور وقف خوروں کی سرکار حمایت کرے گی تو اس کو خمیازہ بھگتنا پڑیگا اتوار کو بھی انتظامیہ  نے مولانا کلب جواد کے گرفتاری کے پروگرام کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ پہلے مولانا کلب جواد نے ناظم صاحب کے امام باڑے سے گرفتاری دینے کا اعلان کیا تھا لیکن انتظامیہ نے عین وقت پر ناظم صاحب کے امام باڑے کو بند کر دیا جس کے بعد بڑے امام باڑے سے گرفتاری دینے کا پروگرام بنانا پڑا۔غور طلب بات یہ  ہے کہ مولانا کلب جواد کی حمایت میں شیعہ ، سنی ، ہندو، سکھ اور عیسائی بھی کندھے سے کندھے ملا کر بڑے امام باڑے پر ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں گرفتاریاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق اترپردیش کی حکومت بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث اوقاف حکام کی بھر پور حمایت کررہی ہے۔