مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار" وال اسٹریٹ جرنل" نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ کے کمپاؤنڈ سے امریکہ نے آپریشن کے دوران پندرہ لاکھ دستاویزات قبضے میں لیں جن میں سے دنیا کے سامنے صرف دو درجن پیش کی گئیں ۔ان دستاویزات میں جولائی 2010 میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا طالبان اور نام نہاد جہادیوں کے نام ایک خط بھی شامل ہےجس میں شہباز شریف کی طرف سے نام نہاد جہادیوں کے ساتھ ایک امن معاہدے کا ذکر ہے۔
اخبار کے مطابق امریکہ نے القاعدہ کے معدوم رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکیوں سمیت دنیا کوگمرا ہ کیا۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے القاعدہ کی جس طرح عکاسی کی گئی وہ ان دستاویزات کے متضاد تھی جو اسامہ کے کمپاؤنڈ پر حملے کے وقت وہاں سے قبضے میں لی گئی۔۔ ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں اب بھی القاعدہ کے بڑھتے خطرات کا سامنا تھا اور یہ صرف پاکستان اور افغانستان اور عراق سے نہیں تھابلکہ یمن سے بھی تھا۔ بیوروکریٹک جنگ کے بعد ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی اور بعض اہم تجزیہ کاروں کی ایک محدود ٹیم کودستاویزات تک رسائی دی گئی۔ان دستاوزات کے تجزے کے مطابق اسامہ کی ہلاکت کے بعد اوبامہ نے جو مہم چلائی اور جو موقف اختیار کیا وہ ان دستاویزات کے برعکس تھا۔دستاویزات کے مطابق بن لادن کو القاعد ہ پر مکمل کنٹرول تھا۔ بن لادن نے اپنے منصوبے پھیلا دیے تھے۔اسامہ کے کمپاؤنڈ سے پندرہ لاکھ دستاویزات قبضے میں لی گئی جن میں سے دنیا کے سامنے صرف دو درجن لائی گئیں ۔ان دستاویزات میں جولائی 2010کا ایک خط جس میں شہباز شریف کی طرف سے نام نہاد جہادیوں کے ساتھ ایک امن معاہدے کا ذکر ہے۔ یہ خط عطیہ عبد الرحمن کی طرف سے لکھا گیا۔اس میں ذکر کیا گیا کہ پاکستانی حکومت طالبا ن کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنا چاہتی تھی القاعدہ نے مذاکرات کے دوران پاکستانی طالبان کی رہنمائی کا ارادہ کیا۔ اسی خط میں ذکر ہے کہ القاعدہ اور اس کے اتحادی پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے مذاکرات میں مذاکراتی حربہ کے طور پر دہشت گرد حملوں کو استعمال کرتے ہیں۔ خط میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی القاعدہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھی۔القاعدہ نے میڈیا کو یہ بیان لیک کیا کہ پاکستان کو ہلاکر رکھ دینے والا زمینی آپریشن شروع کیا جارہا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد القاعدہ نے یہ لیک کیا کہ انٹیلی جنس کے لوگ پاکستانی 'جہادی' گروہوں کے ذریعے ہم تک پہنچناشروع کر دیا ہے جن کی انہوں نے منظوری دی۔ ان میں سے ایک فضل الرحمان خلیل اور دوسرے حمید گل تھے۔ اسامہ کے کمپاونڈ پر کارروائی کرنے والی ٹیم کے مشن کے صرف دو مقاصد تھے،اسامہ کی ہلاکت اور اس کے کمپاؤ نڈ سے تما م ضروری دستاویزات حاصل کرنا۔ اسامہ کی ہلاکت کے بعد پنٹاگون کی طرف سے قبضے میں لئے گئے جس مجموعے کا ذکر کیا گیا ان میں دس ہارڈ ڈرائیو ایک سو یو ایس بی، ایک درجن موبائل فون، ہاتھ سے لکھی دستاویزات کے پلندے ،اخبارات اور جرائد تھے ۔سنیئر انٹیلی جنس عہدے دار کا کہنا تھا کہ کسی بھی سینئر دہشت گرد سے حاصل مواد کا یہ واحد سب سے بڑا مجموعہ ہے۔امریکہ کے ہاتھ القاعدہ کی پلے بک بھی لگی تھی جس میں ان کی موجودہ کاروائیوں کی تفصیلات تھیں۔سی آئی اے نے اس پر فوری ایکشن لیا۔ ڈائریکٹر آف نیشنل جنرل انٹیلی جنس کے مطابق دستاویزات سے چار سو سے زائد رپورٹیں تیار کی گئی۔ لیکن ان تما م انٹیلی جنس مواد کے تجزیے سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا گیا اور کئی ماہ تک ان دستاویزات کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اسامہ کی ہلاکت کے ایک سال بعد انتخابات سے قبل اوبامہ نے القاعدہ کے ساتھ طویل جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ذرائع کے مطابق امریکہ نے ہی القاعدہ اور دیگر دہشت گردوں کو سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک کے تعاون سے تشکیل دیا اور آج بھی امریکہ ہی دہشت گردوں کی پشتپناہی کررہا ہے داعش، النصرہ، طالبان اور دیگر سلفی وہابی دہشت گردوں ک صفوں میں اس وقت بڑی تعداد میں امریکی، برطانوی اور بعض عرب ممالک کے جاسوس سرگرم عمل ہیں جو اعلی عہدوں پر بھ فائز ہیں اور جن پر کسی کو کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے جس کی ایک مثال برطانوی جاسوس ایمن دین کی ہے جو حقیقت میں برطانوی جاسوس تھا اور القاعدہ کے اصلی بانیوں میں سے ایک تھا اور جو مغربی ممالک کے لئے جاسوسی کرتا تھا ۔