مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ کربلا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آج نو محرم الحرام ہے یہ دن علمدار کربلا حضرت عباس علیہ اسلام کے نام سے موسوم ہے حضرت عباس حضرت امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے علمدار تھے جنھوں نے کربلا مٹھی بھرحسینی سپاہیوں کو ایک ایک کرکے شہید ہوتے ہوئے دیکھا جب آخر میں اپنے آقا امام حسین (ع) کی خدمت میں اذن جہاد حاصل کرنے کے لئے پہنچے تو امام حسین علیہ السلام کے اس جملہ سے روبرو ہوئے عباس، بچے پیاسے ہیں جاؤ پانی لاؤ، عباس (ع) کی ذمہ داری جہاد سے پانی لانے میں تبدیل کردی گئی یہ ایسا راز ہے جو کربلا کے علاوہ کہیں نہیں ملےگا۔ قمرِبنی ہاشم کہلانے والے حضرت عباس کی والدہ اْم البنین کے نام سے مشہور ہیں۔امام حسین عالی مقام نے حضرت عباس کو کربلا میں اپنے مختصر لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا تھا ،آپ اپنی جرات ،بہادری اور دلیری کی وجہ سے امام کے قافلہ کی خواتین اور بچوں کے لئے تحفظ کی علامت تھے۔۔ بچوں کی پیاس دیکھ کرامام کی اجازت سے نہر فرات سے پانی لینے گئے۔ مشک بھر کر واپس آنے لگے تو یزیدی فوج نے حملہ کردیا آپ کے دونوں بازو کٹ گئے اور مشک چِھد گئی،آپ شہید ہوگئے۔آج بھی آپ کا نشان ،عَلم بہادری، حریت، آزادی اور سپہ سالاری کی علامت ہے۔آج مجالس میں حضرت عباس کے فضائل اور شہادت کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے حضرت عباس کربلا کے بچوں اور خواتین کے ڈھارس تھے۔
حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اھلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں امام حسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔
واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 یازیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے زیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے۔
دس محرم الحرام کو امام حسین علیہ السلام نےان کو پیاسے بچوں خصوصاً اپنی چار سالہ بیٹی سکینہ بنت الحسین کے لئے پانی لانے کا حکم دیا مگر ان کو صرف نیزہ اور علم ساتھ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں انھوں نے اپنے دونوں ھاتھ کٹوا دیئے اور شہادت پائی۔ اس دوران ان کو پانی پینے کا بھی موقع ملا مگر تین دن کے بھوکے پیاسے شیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ تو پانی پی لیں اور خاندا نِ رسالت پیاسا رہے۔ شہادت کے بعد جیسے باقی شہداء کے ساتھ سلوک ھوا ویسے ہی حضرت ابوالفضل العباس کے ساتھ ہوا۔ ان کا سر کاٹ کر نیزہ پر لگایا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ ان کا روضہ اقدس عراق کے مقدس شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ان کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب ان کی قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔
ضو وہ شیشے میں کہاں جو الماس ميں ہے
سارے عالم کی وفا حضرت عباس ميں ہے۔