مہر خبر رساں ايجنسي نے نقل كيا ہے كہ اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ پروردگار عالم نے جس دور ميں جسے نمائندہ بنايا ? ساري كائنات ميں اس كا كوئي جواب نہيں ملا اور فضائل و كمالات اس شان سے منظر عام پر آ? كہ دشمنوں كو بھي اقرار كرنا پڑا ? وہ مصائب ميں رہے ? قيد خانہ ميں رہے ? حراستوں ميں رہے ليكن ان كے كردار كي شعا عيں دنيائے انسانيت كے دلوں تك پہونچتي رہيں ? كيا دنيا اس حقيقت كو نظر انداز كر دے گي كہ سلاطين دنيا نے ائمہ معصومين (ع) كي زندگيوں پر بے پناہ پہرے بٹھا? اور حراست و زندان ميں ركھ كر اذيت و مصيبت كي بے حساب تاكيد كي ليكن جس نے ايك مرتبہ كردار و عمل كا جائزہ لے ليا وہ گرويدہ ہو? بغير نہ رہ سكا ? كتنے كافروں كو مسلمان بنا ديا ? كتنے منافقوں كو صاحب ايمان بنا ديا ? كتنے دلوں ميں عقيدت كے چراغ جلا د? ? كتنے ذہنوں كو محبت كي روشني ديدي ? كتنے حيوانوں كو انسان بنا ديا اور بسا اوقات تو ايسا انقلاب بپا كرديا كہ ديكھنے والے ديكھتے ہي رہ گ? ? دربار ميں قتل كے ارادہ سے بلايا گيا اور جب دربار ميں داخلہ ہوتا ہے تو حاكم سرو قد كھڑا ہوكر تعظيم كرتا ہے ? غلاموں كو گردن زدني كي تاكيد كردي گئي ہے ليكن جب تشريف لاتے ہيں تو غلام جھك كر تسليم كرتے ہيں ? تاريخ ميں ايك واقعہ نہيں ہے بيشمار واقعات ہيں ? اس وقت دو ايك واقعات كي طرف اشارہ كردينا كافي ہے ? تاكہ دنيا كا ظلم بھي سامنے آجا? اور ظلم كي شام ميں ہدايت كے چراغ كي روشني بھي نظر آجا? ?
عبداللہ بن خاقان ايك محب اہلبيت (ع) اور عقيدت مند انسان تھا ? اس كے فرزند احمد بن عبد اللہ كو حكومت وقت نے صيغہ اوقاف كا افسر بنا ديا تھا ? عہدہ كا ملنا تھا كہ دنيا منقلب ہوگئي ? اور دشمني اہلبيت (ع) ہي سرمايہ زندگي بن كر رہ گئي ? ايك مرتبہ احمد بن عبداللہ كے سامنے علوي سادات كا ذكر آگيا تو اس نے كہا كہ رو? زمين پر سادات ميں امام حسن عسكري عليہ السلام سے بہتر و افضل كوئي نہيں ہے ?ان كا علم ان كا زہد ان كا تقوي ان كي عظمت قابل صد رشك ہے ? علما ء سے ليكر عوام تك اور فقراء سے ليكر حكام تك سب ان كي تعظيم كرتے ہيں ? اور ان كے كمالات كي قدر كرنا اپنا فريضہ سمجھتے ہيں ? لوگوں نے كہا كہ آپ ايسا فرمارہے ہيں ؟ آپ كو تو اس كے خلاف كہنا چاہ? ? اس نے كہا كہ بيشك ليكن ميرا تجربہ يہ ہے كہ ايك دن ميں ديوان خانہ ميں اپنے باپ كے پاس كھڑا تھا كہ خادموں نے آكر خبر دي كہ امام حسن عسكري عليہ السلام تشريف لارہے ہيں ? يہ سننا تھا كہ ميرے بابا انكي تعظيم كے ل? دوڑ پڑے اور نہايت ہي احترام سے لاكر اپنے پاس بٹھايا ? ميں نے اس سے پہلے كسي كي اس طرح تعظيم كرتے نہيں ديكھا تھا ? مجھے سخت حيرت ہوئي كہ بابا كو كيا ہوگيا ہے اور اس طرح تعظيم كيوں كر رہے ہيں ? ليكن كھڑا منظر ديكھتا رہا ? وہ حضرت تشريف لارہے ہيں اور ميرے بابا گفتگو ميں مسلسل يہ كہتے رہے كہ ميرے ماں باپ آپ پر قربان ? مجھے حيرت ہوئي كہ اس جوان ميں كون سي خاص بات ہے كہ بابا جان اس انداز سے گفتگو كررہے ہيں ? يہ تو گفتگو كا انداز نہيں ہے ? اسي اثناء ميں كسي نے خبر دي كہ خليفہ وقت تشريف لارہے ہيں لوگ تعظيم كے ل? دوڑ پڑے ليكن بابا پر كوئي اثر نہيں ہوا مجھے اور تعجب ہوا كہ آج يہ كيا ہوگيا ہے كہ بادشاہ سلامت كي سواري آرہي ہے اور ان پر كوئي اثر نہيں ہورہا ہے نہ استقبال نہ احترام ? نہ چوبدارنہ خدام ? كوئي توجہ نہيں ہے يہاں تك كہ سواري كا ايك حصہ مكان كے احاطہ ميں داخل ہوگيا تو بابا نے امام (ع) سے فرمايا اب مناسب ہے كہ آپ تشريف لے جائيں ?خليفہ وقت كي سواري آرہي ہے وہ حضرت نہايت خاموشي سے روانہ ہوگ? ? بابا نے ان كي پيشاني كا بوسہ ديا اور انھيں رخصت كركے بادشاہ كے استقبال كي طرف متوجہ ہوگ? ? مجھے يہ بات سخت ناگوار گذري ? ميں نے خادموں سے پوچھا كہ يہ جوان كون تھے جنہيں بابا نے اس قدر مرتبہ ديا ہے ? خادموں نے كہا كہ يہ امام حسن عسكري عليہ السلام ہيں جنھيں ابن الرضا كے لقب سے ياد كيا جاتا ہے ? يہ اپنے وقت كے بڑے صاحب كمالات و كرامات ہيں ? ميں نے طے كرليا كہ آج اپنے بابا سے بحث كروں گا كہ آخر يہ كيا طريقہ ہے كہ خليفہ وقت آ? تو كوئي فكر نہيں اور ايك جوان آجا? تو يوں ان كي تعظيم كي جا? ? يہ كيا انداز ہے ? يہاں تك كہ رات آئي اور بابا جان كاغذات ديكھنے بيٹھے تو ميں نے قريب آكر عرض كي ? يہ كون بزرگ تھے جنكي تعظيم كے ل? آپ بے قرار تھے ? اور ان سے اس لہجہ ميں گفتگو كررہے تھے ? عبداللہ نے كہا كہ يہ شيعوں كے امام ہيں اور ياد ركھو كہ خلافت بني عباس سے نكل جاتي تو رو? زمين پر ان سے زيادہ كوئي حق دار نہيں تھا ? يہ بڑے صاحب كرامات و كمالات ہيں ان كے والد امام علي نقي عليہ السلام بھي بے پناہ كمالات كے مالك تھے يہ لوگ يكتا? عصر اور يگانہ روزگار ہيں ان كي كوئي مثال و نظير نہيں ہے ماہ ربيع الاول كي آٹھويں تاريخ تھي جب امام حسن عسكري عليہ السلام اس دنيا سے رخصت ہورہے تھے ? اور ہمارا اور آپ كا آخري امام يتيم ہورہا تھا ? يہ تاريخ عزا كي تاريخ ميں بے حد اہميت كي حامل ہے ? سال بھر جن معصومين كا غم منايا جاتا ہے وہ خود بھي اس دنيا سے جا چكے ہيں ? اور ان كے وارث بھي دنيا سے جاچكے ہيں ? ليكن ہمارا يہ گيارہواں امام وہ ہے جس كا وارث خدا ركھے ابھي زندہ ہے ? ضرورت ہے كہ ہم اور آپ مل كر اپنے اس امام زمانہ (ع) كي خدمت ميں باپ كا پرسہ ديں اور عرض كريں كہ فرزند رسول (ص) اب تك آپ كربلا كے مصائب كو ياد كركے روتے تھے اور حسين (ع) مظلوم كي خدمت ميں عرض كرتے تھے جد بزرگوار ! اگر زمانہ نے مجھے پيچھے ڈال ديا ہے اور مقدر نے موقع نہيں ديا كہ ميں كربلا ميں آپ كي نصرت كرتا تو جد مظلوم اب ميں صبح و شام آپ كا ماتم كروں گا اور آنسو تمام ہوجائيں گے تو آنكھو ں سے خون بہاؤ نگا ليكن آپ كے مصائب پر گريہ بند نہ كروں گا