مہر نیوز-29 جنوری 2012ء: اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر احمدی نژاد نے جوانوں اور اسلامی بیداری کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی، صہیونیوں کو بچانے کے لئے مذہبی اور نسلی اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکہ کے اس شوم منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے علاقائی قوموں کو بیدار رہنا چاہیے۔

مہرخبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں صدر احمدی نژاد کی موجودگی میں جوانوں اور اسلامی بیداری کی عالمی کانفرنس کا آغازہوگيا ہے۔ اس کانفرنس میں 73 ممالک کے جوان شریک ہیں۔ کانفرنس میں اسلامی بیداری کے موضوع پر بحث اور تبادلہ خیال کیا جائےگا۔ کانفرنس کے آغاز میں عالمی اسلامی بیداری کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اپنے خطاب میں اسلامی بیداری میں جوانوں کے نقش کو اہم قراردیا، اس کانفرنس سے صدر امدی نژاد نے بھی خطاب میں امریکہ ، اسرائيل اور ان کے اتحادیوں کی سازشوں کو برملا کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سامراجی طاقتیں اپنے غلاموں اور نوکروں کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئےوسیع پیمانے پر تلاش و کوشش کررہی ہیں۔ صدر احمدی نژاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی، صہیونیوں کو بچانے کے لئے مذہبی اور نسلی اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکہ کے اس شوم منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے علاقائی قوموں کو بیدار رہنا چاہیے۔

صدر احمدی نژاد نے کہا کہ آزادی، کرامت ، عدل و انصاف تمام قوموں کا حق ہے انھوں نے کہا کہ امریکہ  غاصب صہیونیوں کو بچانے کے لئےعلاقہ میں مذہبی اور قومی اور لسانی اختلافات پیدا کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے اور امریکہ کے اس شوم منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے علاقائی قوموں اور دانشوروں اور علماء کو ہوشیار رہنا چاہیے انھوں نے کہا کہ امریکہ نے اس علاقہ میں گذشتہ برس 60 ارب ڈآلر کے ہتھیار فروخت کئے ہیں کیا یہ ہتھیار جمہوریت کے فروغ کے لئے ہیں یا جنگ و جدال کے لئے ؟  صدر احمدی نژاد نے کہا کہ علاقہ کےبعض ممالک  جن میں جمہوریت کا کوئي نام و نشان نہیں ہے وہ دوسروں کو جمہوریت کا درس دینے کے لئے جمع ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج بعض عرب ممالک کے ذریعہ امریکہ شام میں عدم استحکام پیدا کررہاہے اور کل انہی عرب ملکوں کی نوبت آئے گی اور امیکہ کے ہاتھ سے انھیں کوئي نجات نہیں دلا سکے گآ۔ صدر احمدی ںژاد نے کہا کہ عرب ممالک کے رہنماؤں کو ہوش و درایت سے کام لینا چاہیے اور انھیں امریکہ کی مزید غلامی کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔