حضرت فاطمہ معصومہ عليہا السلام كي ولادت
ترجمہ و تحقيق :عبدالحسين موسوي
1 ذيقعدہ سن 173 ھ ق
ساتويں امام حضرت امام موسي كاظم عليہ السلام كے 35 فرزند تھے ، ان ميں سے سب سے فاضل آٹھويں امام حضرت امام علي بن موسي الرضا عليہ السلام ہيں ?(1)
امام رضا (ع) قاسم (ع) اور فاطمہ معصومہ (س) ايك ہي ماں نجمہ خاتون معروف بہ ام البنين كے بطن سے تھے ـ (2)
حضرت فاطمہ معصومہ كي ولادت باسعادت پہلي ذيقعدہ سن 173 ھ ق كو مدينہ منورہ ميں ہوئي ـ
ابھي زيادہ دن نہ گزرے تھےكہ بچپنے ہي ميں آپ اپنے شفيق باپ كي شفقت سے محروم ہوگئيں? آپ كے والد كي شہادت ، ہارون كے قيد خانہ بغداد ميں ہوئي ?
باپ كي شہادت كے بعد آپ اپنے عزيز بھائي حضرت علي بن موسي الرضا عليہ السلام كي آغوش تربيت ميں آگئيں ـ
سن 200 ھ كوجب امام رضا(ع)، مامون [ آٹھواں عباسي خليفہ ] كي دعوت پر مدينہ منورہ سے خراسان كے شمالي علاقہ ميں واقع شہر " مرو" تشريف لاے ليكن اس سفر ميں اپنے عزيزوں ميں سے كسي كو بھي اپنے ہمراہ نہيں لاے?امام (ع) كے "مرو" پہونچنے پر مامون نے آپ كو ولايت عہدي كي پيشكش كي اور امام (ع) كے انكار پرآپ كو ولايت عھدي قبول كرنے پر مجبور كيا جسے آخر كار امام (ع) نے چند شرائط كے ساتھ قبول كيا ـ امام (ع) كي ہجرت كے ايك سال بعد بھائي كے ديدار شوق ميں اور رسالت زينبي اور پيام ولايت كي ادائيگي كے لے آپ نے بھي وطن كو الوداع كہا اور اپنے بھائيوں اور بھتيجوں كي جماعت كے ہمراہ خراسان روانہ ہوئيں ـ ايران كے ہر شہر اور ہر محلے ميں آپ كا والہانہ استقبال ہو رہا تھا ، يہي وقت تھا جب آپ اپني پھوپھي حضرت زينب (س) كي سيرت پر عمل كر كے مظلوميت كے پيغام اور اپنے بھائي كي غربت مؤمنين اور مسلمانوں تك پہونچا رہي تھيں اور اپني و اھلبيت كي مخالفت كا اظہار بني عباس كي فريبي حكومت سے كررہي تھيں ـ يہي وجہ تھي كہ جب آپ كا قافلہ شہر ساوہ پہونچا تو دشمنان اھلبيت (ع) جن كے سروں پر حكومت كا ہاتھ تھا راستے ميں حائل ہوگ? اور حضرت معصومہ (س) كے قافلہ سے ان بد كرداروں نے جنگ شروع كردي? نتيجتا قافلہ كے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمايا? يہاں تك كہ ايك روايت كے مطابق حضرت معصومہ (س) كو بھي زہر ديا گيا ?
حضرت معصومہ (س) اپنے عزيزوں كے قتل عام اور ايك روايت كے مطابق زہر كي وجہ سے بيمار ہوگئيں ـ آنحضرت (س) نے دريافت كيا كہ يہاں سے قم كا فاصلہ كتنا ہے ؟
جواب ديا گيا: دس فرسخ ـ
آنحضرت نے فرمايا : شہر قم ہمارے شيعوں كا مركز ہے? اور حكم ديا كہ قافلہ كو قم كي طرف روانہ ہو ـ
قم ميں يہ خبر پھيلتے ہي خوشي و مسرت كي لہر دوڑ گئ? اور سب كے سب آپ كے استقبال ميں نكل پڑے ـ موسي بن خزرج بن سعد جو كہ آل سعد اشعري خاندان كے بزرگوں اور قم كے معروف شيعوں ميں سے تھے انہوں نے آنحضرت كے ناقہ كي مہار كو آگے بڑھ كر تھام لياـ اور بہت سے لوگ جو سوار اور پيادہ تھے پروانوں كي طرح اس قافلہ كے ارد گرد چلنے لگے?23 ربيع الاول سن 201 ھ وہ عظيم الشان تاريخ تھي جب آنحضرت قم ميں داخل ہوئيں اور شھرقم، قم المقدسہ بن گياـ اس محلّے ميں جسے آج كل ميدان مير كے نام سے ياد كيا جاتا ہے آنحضرت كي سواري موسي بن خزرج كے گھر كے سامنے بيٹھ گئ نتيجتا آپ كي ميزباني كا عظيم شرف موسي بن خزرج كو مل گياـ
حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے سترہ دن اس شہر ميں زندگي گزاري اور ان ايام ميں آپ اپنے خدا سے راز و نياز كي باتيں اور اس كي عبادت ميں مشغول رہيں ? حضرت معصومہ (س) كي جا? عبادت اور قيام گاہ "مدرسہ ستيہ" تھي جو آج كل " بيت النور" كے نام سے مشہور ہے اور اب آنحضرت كے عقيدتمندوں كي زيارتگاہ بني ہوئي ہےـ
آخر كار غريب الوطني كے عالق ميں دس ربيع الثاني اور ايك اور قول كے مطابق بارہ ربيع الثاني سن 201 ھ كو قبل اس كے كہ آپ برادر عزيز امام رضا (ع) كے چہرہ منورہ كي زيارت كر پاتيں، آپ نے داعي اجل كو لبيك كہاـ
موسي بن خزرج نے آنحضرت كو اپنے باغ ميں دفنا كر ان كے مزار پر سايہ بان قرار دياجہاں پر آج آنحضرت كاحرم مطہر ہے ـ(3)
حضرت فاطمہ معصومہ (س) كے مرقد كي زيارت كرنے كي فضيلت بہت زيادہ بيان ہوئي ہے? تين معصوم اماموں (ع) سے منقول تين احاديث آپ كي خدمت ميں پيش ہيں جن ميں حضرت معصومہ (س) كي شخصيت اور ان كي قبر كي زيارت كي اہميت كو بيان كيا گيا ہےـ
1- عن الامام الصادق(ع)، قال: إنّ لله حرماً و هو مكه، ألا اِنّ لرسول الله(ص) حرماً و هو المدينه، ألا و اِن لأميرالمومنين(ع) حرماً و هو الكوفه، ألا و اِنّ قم الكوفه الصغيرة، ألا اِنّ للجنه ثمانيه ابواب، ثلاثه منها اِلي قم. تقبض فيها امرأة من ولدي اسمها فاطمه بنت موسي(ع)، و تدخل بشفاعتها شيعتي الجنه بأجمعهم.(4)
امام صادق عليہ السلام سے نقل ہے كہ آپ نے فرمايا: خدا وند عالم حرم ركھتا ہےاور اسكاحرم مكہ ہے ، پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ حرم ركھتے ہيں اور ان كا حرم مدينہ ہے ، امير المؤ منين عليہ السلام حرم ركھتے ہيں اور ان كا حرم كوفہ ہے قم چھوٹا كوفہ ہے ، جنت كے آٹھ دروازے ہيں تين قم كي جانب كھلتے ہيں ، پھر امام (ع) نے فرمايا: ميري اولاد ميں سے ايك خاتون جس كي شہادت قم ميں ہوگي اور اس كانام فاطمہ بنت موسي ہوگا اور اس كي شفاعت سے ہمارے تمام شيعہ جنت ميں داخل ہو جائيں گے ـ
2- عن سعد بن سعد، قال: سألت اباالحسن الرضا(ع) عن فاطمه بنت موسي بن جعفر(ع)؛ فقال: من زارها فله الجنه.(5)
سعد امام رضا (ع) سے نقل فرماتے ہيں كہ آپ نے فرمايا اے سعد جس نے حضرت معصومہ (س) كي زيارت كي اس پر جنت واجب ہے ـ
3- عن ابن الرضا(ع)، قال: من زار قبر عمّتي بقم فله الجنه.(6)
امام جواد عليہ السلام فرماتے ہيں جس نے ميري پھوپھي (س) كي زيارت قم ميں كي اس كے ل? جنت ہے ـ
مدارك اور مآخذ:
1- بحار الانوار [علامہ مجلسي]، ج 101، ص 121
2- وفيات الائمہ، ص 313
3- مستدرك سفينہ البحار [علي نمازي]، ج8، ص 261
4- مستدرك سفينہ البحار ، ص 262
5- مستدرك سفينہ البحار ، ص 262
6- مستدرك سفينہ البحار ، ص 263